پی آئی اے خریداری میں دلچسپی رکھنے والے گروپوں کا ٹیکس ادائیگی پر اعتراض
پی آئی اے خریداری میں دلچسپی رکھنے والے گروپوں کا ٹیکس ادائیگی پر اعتراض
منگل 27 اگست 2024 21:31
خرم شہزاد، اردو نیوز۔ اسلام آباد
حکام کے مطابق انہوں نے خریداروں سے اس بات کی یقین دہانی حاصل کی ہے کہ ٹیکسوں پر اعتراض کے باوجود وہ بولی میں حصہ لیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ اس کی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے بولی دینے کا عمل یکم اکتوبر کو ہو گا۔
پرائیویٹائزیشن کی وفاقی وزارت کے سیکریٹری جواد پال نے پیر کے روز ایک پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے جانچ پڑتال ستمبر میں ختم ہو جائے گی جس کے بعد یکم اکتوبر کو ایئرلائن کی بولی لگائی جائے گی۔
تاہم پاکستان کی مرکزی حکومت کے ایک اعلٰی عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ پی آئی اے خریدنے والے تمام چھ کاروباری گروپوں نے اس کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کے بعد ایئرلائن پر عائد ٹیکسز پر اعتراض کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بولی کا عمل مکمل ہونے سے پہلے ٹیکسز ختم کیے جائیں۔
حکام کے مطابق اس عمل کا حصہ بننے والے کنسورشیم کو دس اگست تک اثاثوں کی جانچ پڑتال کی جائزہ رپورٹ جمع کروانی تھی لیکن چھ میں سے ایک کمپنی نے ابھی تک اپنی جائزہ رپورٹ جمع نہیں کروائی۔
گذشتہ ہفتے حکومتی نمائندوں اور خریداری میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیوں کے ایک اجلاس کے دوران ان کی طرف سے پی آئی اے پر عائد تین اقسام کے ٹیکسز پر اعتراض کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ نجکاری کے عمل کی تکمیل سے پہلے یہ ٹیکسز ختم کیے جائیں۔
’جن ٹیکسز پر اعتراض کیا گیا ان میں ایک ایئرلائن اور اس کے آلات پر لگایا گیا ٹیکس ہے، ایک مسافروں پر لگایا گیا ٹیکس اور ایک حکومت کی طرف سے چھ ماہ کا ایڈوانس ٹیکس ہے جس کی ادائیگی پر اعتراض ہے۔‘
حکام نے بتایا کہ خریداروں کا اصرار ہے کہ اس معاملے کو جلد از جلد طے کیا جائے، تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ ان اعتراضات کے باوجود بولی کا عمل بآسانی پایہ تکیل تک پہنچ جائے گا۔
اس سلسلے میں وزارت نجکاری کے ایک ترجمان نے بتایا کہ پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والے گاہکوں کے ساتھ وقتاً فوقتاً اجلاس منعقد ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ تمام معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم حکام کے مطابق جن ٹیکسز پر اعتراض کیا گیا ہے ان کے خاتمے کے متعلق فیصلے میں وقت لگ سکتا ہے کیونکہ اس کے لیے نجکاری اور ہوابازی کی وزارتوں کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی رضا مندی درکار ہے۔
’اس معاملے پر ایف بی آر ایک واضح موقف رکھے گا جس کے بعد یہ معاملہ وفاقی کابینہ میں جائے گا۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ہی یہ ٹیکس ختم ہو سکتے ہیں۔‘
حکام کے مطابق انہوں نے خریداروں سے اس بات کی یقین دہانی حاصل کی ہے کہ ٹیکسوں پر اعتراض کے باوجود وہ بولی میں حصہ لیں گے۔
’اگرچہ وہ ٹیکس ادا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن وہ بولی میں حصہ لیں گے۔ خریداروں کا مطالبہ ہے کہ پی آئی اے کی فروخت کا عمل مکمل ہونے سے پہلے ٹیکس کا مسئلہ حل ہونا چاہیے۔‘
وزارت نجکاری کے مطابق پی آئی اے کے51 فیصد سے زیادہ شیئرز فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ نئی انتظامیہ آپریشنل امور پر فیصلے کرنے میں خود مختار ہو۔
سیکریٹری وزارت نجکاری نے بتایا کہ بولی دینے کے لیے کوالیفائی کرنے والے چھ گروپس کو پی آئی اے کی صورتحال، اثاثوں، روٹس سمیت تمام امور پر بریفنگ دی جا رہی ہے۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پی آئی اے نے گذشتہ آٹھ برسوں میں پانچ سو ارب روپے کا نقصان کیا۔ گذشتہ مالی سال کے دوران پی آئی اے نے 80 ارب روپے کا نقصان کیا ہے۔ پی آئی اے کے ذمہ مجموعی طور پر 825 ارب روپے کی ادائیگیاں ہیں۔
قبل ازیں پاکستان کے نجکاری بورڈ نے اعلان کیا تھا کہ پی آئی اے کو خریدنے کے لیے آٹھ کاروباری اداروں نے دلچسپی ظاہر کی تھی جن کی تکنیکی، مالی اور دستاویزی حیثیت کی چھان بین کے بعد چھ اداروں بشمول نجی ایئرلائنز فلائی جناح لمیٹڈ، ایئر بلیو لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، وائے بی ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کنسورشیم، پاک ایتھانول کنسورشیم لمیٹڈ اور بلیو ورلڈ کنسورشیم لمیٹڈ کو نجکاری کے اگلے مرحلے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
نجکاری کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق ’پی آئی اے کے ممکنہ سرمایہ کاروں کو اس کے ’ڈیبٹ لائٹ‘ نئے ڈھانچے میں 51 فیصد سے زیادہ حصص کی پیشکش کی گئی ہے۔‘
پاکستان کی ایوی ایشن مارکیٹ میں پی آئی اے کا سب سے زیادہ 23 فیصد حصہ ہے اور ایئرلائن مزید بڑھ کر 30 فیصد کی تاریخی سطح سے تجاوز کر سکتی ہے۔
پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں 34 جہاز ہیں اور اس کے 87 ممالک کے ساتھ فضائی سروس کے معاہدے ہیں، اور لندن ہیتھرو جیسے ایئرپورٹس پر لینڈنگ سلاٹس ہیں۔