Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پنجاب میں ملاوٹ کرنے والوں کا کاروبار چھ مہینے تک بند کرنے سے فائدہ ہوگا؟

نئے قوانین کے تحت پنجاب میں تیار ہونے والی اشیا کی پیکنگ پر بار کوڈ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ (فوٹو: پنجاب فوڑ اتھارٹی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں خوراک کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے سال 2011 میں ایک طاقتور فوڈ اتھارٹی بنائی گئی تھی۔ یہ فوڈ اتھارٹی اس وقت اچانک خبروں کی زینت بنی جب اس میں تعینات ہونے والی ایک خاتون ڈائریکٹر عائشہ ممتاز لاہور کے ریستورانوں میں داخل ہوئیں تو ایک نئی کہانی کی شروعات ہوئی۔
لاہور میں درجنوں ہوٹل سیل کیے گئے اور ٹی وی سکرینوں پر لائیو چھاپے دیکھائے گئے۔ پی سی ایس افسر عائشہ ممتاز ایک سال کے کم عرصے میں ہی ایک ’دبنگ افسر‘ کے نام سے مشہور ہو گئیں اور پھر انہیں اچانک سو دن ایک طویل رخصت پر جانا پڑا۔
اور اس بات پر قیاس آرائیاں ہوئیں کہ فوڈ کے کاروبار سے منسلک طاقتور حلقے ان کے خلاف ہو چکے تھے اس لیے وہ زیادہ دیر اس سیٹ پر ٹک نہیں سکیں۔
اس کے بعد کبھی دوبارہ انہیں پنجاب فوڈ اتھارٹی میں تعینات نہیں کیا گیا۔ وہ اب 18 ویں گریڈ میں ہیں اور پنجاب کے مختلف محکموں میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ ان کی آخری تعیناتی بطور ایڈیشنل سیکریٹری چائنیز سکیورٹی ہے۔
تاہم اب ان چھاپوں کے تقریباً نو سال بعد پنجاب فوڈ اتھارٹی کو قانونی طور پر مزید مضبوط بنانے کے لیے پہلی دفعہ بڑے پیمانے پر ایکٹ میں ترامیم کی جارہی ہں۔
اردو نیوز کو دستیاب ان ترامیم کے مطابق پنجاب کی حدود میں بننے والے کسی بھی فوڈ پر اب ’حلال‘ لکھا ہونا ضروری ہو گا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈی جی عاصم جاوید جو حلال ڈیویلپمنٹ ایجنسی کے رجسٹرار کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں، نے بتایا کہ ’اس نئی ترمیم کے بعد ہر فوڈ پروڈکٹ کے لیے حلال سرٹیفیکیٹ لینا لازمی کر دیا گیا ہے۔ اور اس کے بعد ہر پروڈکٹ پر حلال لوگو ہونا بھی ضروری ہے۔ جس کسی بھی پروڈکٹ پر لوگو نہیں ہو گا وہ جعلی تصور ہو گی اور اس پر وہی قانون لاگو ہو گا جو جعلی اشیا کے لیے ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’اصل بات جو اس ترمیم میں ہم لا رہے ہیں وہ ہے کہ اب خوراک میں ملاوٹ ایک ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔ اسی طرح اتھارٹی کو یہ اختیار بھی دیا جا رہا ہے کہ وہ ملاوٹ کرنے والے کاروبار کو چھ مہینے کے لیے بند کر سکے گی۔‘
نئے قوانین کے تحت پنجاب میں تیار ہونے والی اشیا کی پیکنگ پر بار سکین کیا جا سکنے والا بار کوڈ لازمی قرار دیا جا رہا ہے جس میں اس پروڈکٹ سے متعلق بنیادی معلومات درج ہوں گی۔
کیا قانون میں ترمیم ملاوٹ روک سکے گی؟
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ملاوٹ شدہ کھانوں سے متعلق خاص طور پر ’گدھا بریانی‘ جیسے واقعات کے بعد عام لوگ اس بات پر یقین کم ہی کر پاتے ہیں کہ قوانین سے چیزیں بہتر ہوں گی۔
 

عائشہ ممتاز ایک سال کے کم عرصے میں ہی ایک ’دبنگ افسر‘ کے نام سے مشہور ہو گئیں۔ (فوٹو: فیس بک)

عائشہ ممتاز کے دور میں چھاپوں کو مسلسل کور کرنے والے ایکسپریس نیوز کے  بیوروچیف محمد الیاس سمجھتے ہیں کہ ’اس قانون سے زیادہ فرق نہیں پڑنے والا۔ جو معیار عائشہ ممتاز نے رکھا تھا اس سے لاہور میں بھونچال آگیا تھا۔ یہ جتنے بھی آپ لوگ ہوٹلوں میں سر ڈھانپے ہوئے ورکرز اب دکھتے ہیں یہ سب 2015 میں شروع ہوا تھا اور ان کا اتنا خوف تھا کہ ابھی تک اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یاد ہے کہ ان کے چھاپے تمام ٹی وی چینلز لائیو دکھانے پر مجبور ہو جاتے تھے کیونکہ لوگ ان کو بہت پسند کرتے تھے اس وقت سوشل میڈیا اتنا تو نہیں تھا۔ فیس بک کا استعمال زیادہ تھا تو وہ ایک سیلبرٹی بن گئی تھیں، لیکن پھر جلد ہی ان کو سکینڈلائز کرنے کی مہم شروع ہوئی اس کے بعد آج بھی فوڈ اتھارٹی آئے روز دودھ ضائع کر رہی ہوتی ہے، ہوٹل سیل کر رہی ہوتی ہے لیکن اس کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کا ایک ہی مطلب ہی ہو سکتا ہے کہ اس ادارے کو خود مختار کیا جائے اور دبنگ افسر لگائے جائیں جو کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر فوڈ بزنس کے پیچھے کام کرنے والے مافیا کو کنٹرول کرے۔
خیال رہے کہ عائشہ ممتاز کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ وہ اداکار رنگیلا کی بیٹی ہیں، تاہم انہوں نے کئی بار اس کی تردید کی تھی۔
وہ ایک متوسط خاندان سے ہیں اور مبصرین کا خیال ہے کہ فوڈ اتھارٹی کو شناخت دینے والی اس خاتون افسر کو اب دوبارہ یہ نوکری کبھی نہیں دی جائے گی۔

شیئر: