Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب حکومت نے دریائے سندھ سے سونا نکالنے پر پابندی کیوں لگائی؟

پنجاب کے قانون میں دریائی پانیوں سے سونے کے ذرات نکالنے لیے کچھ زیادہ تفصیل موجود نہیں۔ (فوٹو: ایکس)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ داخلہ نے حال ہی میں اٹک کے قریب دریائے سندھ سے سونا نکالنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا ہے۔
محکمہ داخلہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق کوئی بھی شخص دریائے سندھ کے پانیوں میں سونے کی تلاش کرتا پایا گیا تو اس کے خلاف فوری طور پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ یہ پابندی پنجاب کے محکمہ معدنیات کی سفارش پر عائد کی گئی ہے۔
محکمہ معدنیات کے ایڈیشنل سیکریٹری اشفاق الرحمن نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ پابندی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت دریائے سندھ سے اٹک کے مقام پر سونے کی دریافت پر کئی سال سے جاری تحقیق سے ایسے شواہد ملے کہ وہاں بڑی مقدار میں سونے کے زرات موجود ہیں۔ یہ تحقیق جیولوجکل سروے آف پاکستان کے ذریعے کروائی گئی ہے۔ اور اس حوالے سے محکمہ بہت جلد قانونی طریقے سے آکشن کروا رہا ہے اور سونے کی تلاش کا ٹھیکہ اس کمپنی کو دیا جائے گا جو سب سے زیادہ بولی لگائے گی۔‘

دریائے سندھ میں سونا کہاں سے آتا ہے؟

ماہرین آج تک اس بات کا سراغ نہیں لگا سکے کہ شمالی علاقہ جات کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں سے گزرنے والا دریائے سندھ ایسی کون سے جگہ سے گزرتا ہے جب باقی معدنیات کے ساتھ ساتھ سونے کے ذرات بھی اس کے پانیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔
تاہم جب یہ اٹک کے قریب دریائے کابل سے ملتا ہے اور اس میں ٹھہراؤ آتا ہے اور پھر سردیوں میں جب اس کا پانی نیچے جاتا ہے تو ریت کے ذروں کے ساتھ سونے کے چمکیلے ذرات بھی نمو دار ہو جاتے ہیں۔
محکمہ معدنیات کے ایک اعلی افسر جو سونے کی تحقیق پر کام کر رہے ہیں انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پانی کے بہاؤ کے ساتھ سونے کے ذرات کے آنے کا سلسلہ لاکھوں سالوں سے جاری ہے۔ اور اس کے ذرات کو اکھٹے کرنے والے گلگت بلتستان سے پنجاب تک پھیلے ہوئے ہیں جن کو ’سونے وال‘ کہا جاتا ہے۔‘
’یہ ایک طرح کے پکھی واس ہیں۔ اور چند ایک ذرے اکھٹے کر کے یہ اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ اب چونکہ جدید مشینری اور ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانس ہو چکی ہے اور ملکی قوانین کے مطابق یہ سونا ریاست کی ملکیت ہے اس لیے پنجاب میں پہلی مرتبہ اس پر ایک بہت تفصیلی کام ہوا ہے۔‘
سرکاری دستاویزات کے مطابق دریائے سندھ میں اٹک کے مقام پر 32 کلومیٹر تک کا علاقہ جو تربیلہ اور میانوالی تک پھیلا ہوا ہے اس میں سونے کے ذرات ڈیپازٹ ہوتے ہیں۔ جبکہ 2017 میں ایک چینی کمپنی کو جب دریا سے ریت اٹھانے کا ٹھیکہ دیا گیا تو انہوں نے ساتھ سونے کی کھوج کا بھی کام شروع کردیا۔ جس کے بعد پنجاب کے محکمہ معدنیات نے اس کمپنی کا ٹھیکہ کینسل کروا کر خود اس پر اپنی تحقیقات شروع کر دیں۔

سونا نکالنے کے لیے قانون میں ترمیم:

پنجاب میں معدنیات کے حوالے سے موجود قانون میں دریائے کے پانیوں سے سونے کے ذرات نکالنے لیے کچھ زیادہ تفصیل موجود نہیں ہے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق گذشتہ دو سالوں میں غیر قانونی طور سونا نکالنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سو سے زائد مقدمات درج کروائے گئے ہیں۔ (فوٹو: ایکس)

یہی وجہ ہے کہ جیالوجیکل سروے کے بعد اربوں روپے مالیت کے سونے کے ذرات کی رپورٹ ملنے کے بعد وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے اس سلسلے میں ایک منسٹریل کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے، جو ایک ہی وقت میں قانون میں تبدیلی سمیت کئی معاملات کو دیکھ رہی ہے۔
محکمہ معدنیات کے قانون کے مطابق دھاتوں یا دیگر معدنیات کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد ان کو نکالنے کے لیے اوپن بڈنگ ہوتی ہے یعنی کوئی بھی کمپنی اس میں حصہ لے سکتی ہے۔ تاہم پنجاب حکومت قانون میں ترمیم کر کے اس میں بین الاقومی کمپنیوں کو بھی موقع دینے کی خواہاں ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ بولی پر سونا نکالنے کا ٹھیکہ دیا جا سکے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق گذشتہ دو سالوں میں غیر قانونی طور سونا نکالنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سو سے زائد مقدمات درج کروائے گئے ہیں۔ اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ محکمہ داخلہ پنجاب نے دریائے سندھ  میں دفعہ چوالیس نافذ کر دی ہے۔

شیئر: