مجوزہ آئینی ترمیم، وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی کا اجلاس آج
آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت 68 سال کرنے کی تجویز ہے (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کی پارلیمنٹ میں عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم آج پیش کیے جانے کا امکان ہے تاہم قومی اسمبلی کے اجلاس کے جاری کردہ ایجنڈے میں اس مجوزہ ترمیمی بل کا ذکر موجود نہیں۔
وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس آج تین بجے ہوگا جس میں آئینی ترمیمی بل کی منظوری دی جائے گی۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت اتوار صبح 11:30 بجے سے تبدیل کر کے سہ پہر 4:00 بجے کر دیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق اجلاس کے وقت میں تبدیلی سپیشل پارلیمانی کمیٹی کی خصوصی سفارش پر کی گئی ہے۔
’کمیٹی نے اپنی آج صبح دس بجے ہونے والی میٹنگ کے بعد سپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی تھی کہ چند اہم امور پر فیصلوں کے لیے وقت درکار ہے۔‘
ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کی بلاول بھٹو زرادری سے ملاقات
دوری جانب ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹوزرداری سے ملاقات کی ہے۔
اتوار کو ہونے والی ملاقات میں تینوں رہنماؤں نے آئینی ترمیم سے متعلق پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔
ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں نے جب پوچھا کہ کیسی ملاقات رہی تو ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ ’ہماری ہمیشہ اچھی ہی گفتگو ہوتی ہے۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کون کون سی مجوزہ ترامیم آ رہی ہیں تو انہوں نے جواب کچھ یوں دیا کہ ’وزیر قانون سے پوچھیں، میں نے بھی مسودہ نہیں دیکھا۔‘
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب کمیٹی اجازت دے گی تو سب کچھ آپ کو بتائیں گے۔
’کوشش ہے آئینی ترمیم کا عمل اتوار کو مکمل ہو جائے‘
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنما عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ ’کوشش ہے کہ آئینی ترامیم سے متعلق عمل اتوار کو مکمل کر لیا جائے۔‘
گذشتہ روز سنیچر کو توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں مجوزہ آئینی ترامیم پیش کی جائیں گی تاہم ایسا نہ ہو سکا۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما عرفان صدیقی نے اس حوالے سے بتایا کہ ’ہمیں معلوم تھا کہ ترامیم نہیں آ رہیں اس لیے ہمارے لیے یہ سرپرائز نہیں تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اتوار کو کابینہ کا اجلاس ہے جس کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئینی ترامیم کو پیش کیا جائے گا۔ اگر وہاں سے یہ ترامیم پاس ہو گئیں تو سینیٹ کے اجلاس میں ان ترامیم کو پیش کر دیا جائے گا۔‘
عرفان صدیقی نے کہا کہ ’اگر نمبر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پورے ہوئے تو یہ عمل مکمل ہو جائے گا۔ کوشش ہے کہ سارا عمل اتوار کو ہی مکمل ہو جائے۔‘
عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم کیا ہے؟
عدلیہ سے متعلق ممکنہ آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے کی تجویز ہے جبکہ ہائی کورٹس میں ججز کی مدت ملازمت 62 سال سے بڑھا کر 65 سال کی جا سکتی ہے۔
آئینی ترمیم کے لیے حکمران اتحاد کو دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس وقت اُنہیں ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے تاہم اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آئینی ترمیم لانے کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حمایت کے ساتھ ساتھ حکومت کو آزاد اراکین کا تعاون بھی چاہیے ہو گا۔
قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی پوزیشن
قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت یعنی 224 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ اگر حکومتی اتحادیوں کے کُل نمبروں کا جائزہ لیں تو اس وقت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے پاس 213 ووٹ موجود ہیں۔
ان ارکان میں مسلم لیگ ن کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68 اور متحدہ قومی موومنٹ کے 22 ووٹ شامل ہیں۔
حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ ق کے پاس پانچ ووٹ ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد چار ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ضیا الحق پارٹی کا ایک ایک رکن بھی حکومتی اتحادیوں میں شامل ہے۔
اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان کی تعداد آٹھ ہے۔ اگر حکومت کو قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو اُن کے پاس ترامیم کے حق میں یہ نمبرز 221 ہو جائے گے۔
تاہم جے یو آئی کی حمایت کے باوجود حکومت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی۔ حکمران اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں موجود آزاد ارکان کا تعاون بھی درکار ہو گا۔ حکومتی حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ چار سے پانچ آزاد اراکین قومی اسمبلی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دے سکتے ہیں۔
سینیٹ میں حکمران اتحاد کی پوزیشن
ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 64 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اگر سینیٹ میں نمبرز گیم کا ذکر کریں تو اس وقت سینیٹ میں حکومتی اتحادی جماعتوں کو 55 سنیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔
اِن 55 ووٹوں میں مسلم لیگ ن کے 19 اور پاکستان پیپلز پارٹی کے 24 سینیٹرز شامل ہیں جبکہ اُنہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے چار،متحدہ قومی موومنٹ کے تین اور پانچ آزاد اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔ سینیٹ میں حکمراں اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پانچ ارکان سمیت مزید چار ووٹوں کی بھی ضرورت ہو گی۔