کیا حکمران اتحاد کو مجوزہ آئینی ترمیم کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل ہے؟
کیا حکمران اتحاد کو مجوزہ آئینی ترمیم کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل ہے؟
ہفتہ 14 ستمبر 2024 5:37
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
عدلیہ سے متعلق ممکنہ آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے کی تجویز ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمان میں عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم لائے جانے کی کوششیں جاری ہیں۔
اس حوالے سے حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت آج سنیچر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آئینی ترمیم کا بل پیش کر سکتی ہے، تاہم سرکاری سطح پر اس کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
عدلیہ سے متعلق ممکنہ آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے کی تجویز ہے جبکہ ہائی کورٹس میں ججز کی مدت ملازمت 62 سال سے بڑھا کر 65 سال کی جا سکتی ہے۔
آئینی ترمیم کے لیے حکمران اتحاد کو دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس وقت اُنہیں ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے تاہم اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آئینی ترمیم لانے کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حمایت کے ساتھ ساتھ حکومت کو آزاد اراکین کا تعاون بھی چاہیے ہو گا۔
دوسری جانب پارلیمان میں ممکنہ آئینی ترمیم کے پیش نظر حکومتی اتحادیوں نے اپنے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اسلام آباد میں ہی رہنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔
قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی پوزیشن
قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت یعنی 224 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ اگر حکومتی اتحادیوں کے کُل نمبروں کا جائزہ لیں تو اس وقت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے پاس 213 ووٹ موجود ہیں۔
ان ارکان میں مسلم لیگ ن کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68 اور متحدہ قومی موومنٹ کے 22 ووٹ شامل ہیں۔
حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ ق کے پاس پانچ ووٹ ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد چار ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ضیا الحق پارٹی کا ایک ایک رکن بھی حکومتی اتحادیوں میں شامل ہے۔
اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان کی تعداد آٹھ ہے۔ اگر حکومت کو قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو اُن کے پاس ترامیم کے حق میں یہ نمبرز 221 ہو جائے گے۔
تاہم جے یو آئی کی حمایت کے باوجود حکومت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی۔ حکمران اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں موجود آزاد ارکان کا تعاون بھی درکار ہو گا۔ حکومتی حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ چار سے پانچ آزاد اراکین قومی اسمبلی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دے سکتے ہیں۔
سینیٹ میں حکمران اتحاد کی پوزیشن
ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 64 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اگر سینیٹ میں نمبرز گیم کا ذکر کریں تو اس وقت سینیٹ میں حکومتی اتحادی جماعتوں کو 55 سنیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔
اِن 55 ووٹوں میں مسلم لیگ ن کے 19 اور پاکستان پیپلز پارٹی کے 24 سینیٹرز شامل ہیں جبکہ اُنہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے چار،متحدہ قومی موومنٹ کے تین اور پانچ آزاد اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔ سینیٹ میں حکمراں اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پانچ ارکان سمیت مزید چار ووٹوں کی بھی ضرورت ہو گی۔
پارلیمان میں ممکنہ آئینی ترمیم کے لیے حکومتی اتحادیوں نے اپنے تمام اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اسلام آباد میں ہی رہنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
اس بارے میں مسلم لیگ ن کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی سردار محمد یوسف نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ ہم نے اپنے تمام اتحادیوں کو متوقع آئینی ترمیم کے پیش نظر اسلام آباد میں ہی رکنے کی ہدایت کی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آج آئینی ترمیم لائے جانے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے تاہم صورتحال کو دیکھ کر کوئی بھی حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کا ایجنڈا جاری، آئینی ترمیم پر بل شامل نہیں
قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس آج بالترتیب سہ پہر 3 اور 4 بجے ہو گا۔ دونوں ایوانوں کے اجلاس کا ایجنڈا جاری کر دیا گیا ہے تاہم آئینی ترامیم سے متعلق بل ایجنڈا آئٹمز میں شامل نہیں ہے۔ آئینی ترمیمی بلز ضمنی ایجنڈا کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے آج کے ہونے والے اجلاس کا 6 نکاتی ایجنڈا جاری کیا ہے۔ آئی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹس سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس ایجنڈے کا حصہ ہے جبکہ پاکستان منرلز ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کی نجکاری سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس بھی اینجڈے میں شامل کیا گیا ہے۔
پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم حکومت کسی بھی وقت سپلیمنٹری ایجنڈا کے ذریعے پیش کر سکتی ہے۔ اگر آج مجوزہ آئینی ترمیم پیش نہ کی گئی تو اسے اتوار کو پارلیمان میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیم لانے کی صورت میں قواعد و ضوابط معطل کرنے کی تحریک ایوان میں پیش کرنا ہوگی۔
دوسری جانب سینیٹ سیکریٹریٹ نے آج ہونے والےاجلاس کا 5 نکاتی ایجنڈا جاری کیا ہے۔ سینیٹ اجلاس میں کوئی قانون سازی ایجنڈا کا حصہ نہیں ہے۔ ایوان بالا میں بھی آئینی ترمیمی بلز ضمنی ایجنڈا کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
پارلیمانی ذرائع کے مطابق نمبر گیم پوری ہونے پر سپلیمنٹری ایجنڈا کے طور پر آئینی ترمیمی بل ایوان میں پیش کر سکتے ہیں۔
سینیٹ اجلاس کے 5 نکاتی ایجنڈا آئٹمز کے مطابق سینیٹر اسحاق ڈار وقفہ سوالات مؤخر کرنے کی تحریک پیش کریں گے۔ سینیٹر ضمیر حسین گھمرو کا ضلع خیرپور میں گیس کی عدم فراہمی پر توجہ دلاؤ نوٹس ایجنڈا کا حصہ ہے جبکہ سینیٹرسیف اللہ ابڑو کا مختلف ڈسکوز میں چیئرمین و بورڈ ممبران کی عدم تعیناتی سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ سینیٹ اجلاس میں صدر مملکت کے مشترکہ ایوان سے خطاب کی تحریک پر بحث بھی کی جائے گی۔