Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مخصوص نشستیں: سپریم کورٹ کی وضاحت آئینی بحران سے بچنے کے لیے ہے: علی ظفر

سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر جاری کی گئی وضاحت پر ردعمل دیتے ہوئے سینیٹ میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ ’عدالتِ عظمیٰ کا بیان آئین کی حفاظت کے لیے تاکہ مستقبل میں کوئی آئینی بحران پیدا نہ ہو۔‘
سنییچر کو نجی ٹی وی چینل سما نیوز پر میزبان ابصار عالم سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے اس وقت یہ وضاحتی بیان اس وجہ سے بھی جاری کیا ہے تاکہ آئندہ کوئی یہ الزام نہ لگا سکے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں ابہام تھا لہٰذا ہم نے اس کی روشنی میں یہ ترمیم کر لی۔‘
بیرسٹر علی ظفر کا مزید کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے جتنے بھی اراکین تھے چاہے انہوں نے پی ٹی آئی کے نشان کے تحت الیکشن لڑا ہو یا نہ لڑا ہو، وہ سب پی ٹی آئی کی پارلمیانی پارٹی کے رکن تصور کیے جائیں گے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ’یہ ایک بہت اہم بات ہے، یعنی ان پر بھی آئین کا آرٹیکل 63 اے لاگو ہوگا، یعنی وہ سب اپنی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کے فیصلے کے پابند ہیں۔‘
سینیٹ میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ ’جب بھی کوئی آئینی ترمیم آتی ہے تو آپ کو دور تک دیکھنا پڑتا ہے، اس کے مثبت اور منفی اثرات دیکھنا پڑتے ہیں، اس کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے، ابھی وقت آئینی ترمیم کا نہیں ہے۔ آئینی ترمیم میں سارے سٹیک ہولڈرز، ساری سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنا ہوتی ہے جو کہ اس میں ویسے بھی نہیں ہوا۔‘
اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں ملنے سے متعلق الیکشن کمیشن کی درخواست پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کے نتائج ہو سکتے ہیں۔‘
سنیچر کو سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں کی جانب سے جاری ہونے والے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ ’الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلے پر وضاحت طلب کرنا تاخیری حربوں کے مترادف ہے۔ بظاہر الیکشن کمیشن کا فیصلے پر وضاحت طلب کرنے کا اقدام غلط فہمی پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
وضاحتی بیان کے مطابق الیکشن کمیشن تسلیم کر چکا ہے کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔ الیکشن کمیشن کا تحریک انصاف کے ارکان کے سرٹیفکیٹ تسلیم نہ کرنا سراسر غلط ہے۔
الیکشن کمیشن کو اس اقدام کے آئینی اور قانونی نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے تمام ارکان پاکستان تحریک انصاف کے تصور ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں کی جانب سے جاری ہونے والے وضاحتی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’فیصلے کا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہو گا۔ الیکشن کمیشن کی کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کو سخت الفاظ میں مسترد کیا جاتا ہے۔
واضح کیا جا چکا ہے کہ فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے پر فوری عمل درآمد کی ہدایت کر دی ہے۔
خیال رہے کہ رواں برس 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا
سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے اکثریتی فیصلے میں کہا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے، پاکستان تحریک انصاف سیاسی جماعت تھی اور ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں تحریک انصاف کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
عدالت نے کہا کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حق دار ہے اور اس کے لیے اپنی فہرست 15 دنوں کے اندر جمع کرائے۔
سپریم کورٹ کے وضاحتی بیان پر ردعمل دیتے ہوئے سینیٹ میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ’عدالتی عظمیٰ کا بیان آئین کی حفاظت کے لیے تاکہ مستقبل میں کوئی آئینی بحران پیدا نہ ہو۔

شیئر: