Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

18 برس کی عمر میں ’ملکۂ ترنم‘ کا اعزاز پانے والی قصور کی اللہ وسائی

نور جہاں آج ہی کے روز 21 ستمبر1926 کو قصور میں موسیقاروں کے خاندان میں پیدا ہوئیں (فوٹو: ریڈیو پاکستان)
ہندوستانی سنگیت کے شہنشاہ میاں تانسین اکبر اعظم کے نورتنوں میں سے ایک تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ نے اس مہان کلاکار کو قصور میں بہت سی جاگیر عطا کی تھی۔ اُستاد بڑے غلام علی خان بھی اسی شہرِ قصور سے تھے مگر یہ اللہ وسائی کا شہر بھی تھا۔ وہ اللہ وسائی جس نے آنے والے برسوں میں اپنے سنگیت سے ایک دنیا کو سحرزدہ کیے رکھا اور آنے والے برسوں میں ملکۂ ترنم نور جہاں کے نام سے مشہور ہوئیں۔
کھیلنے کودنے کے دن تھے، ہم جولیوں کے ساتھ شرارتیں کیا کرتی مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آ جاتے ہیں، تو اللہ وسائی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اُن کی ایک پھُپھی نے ان کے رونے پر اپنے بھائی سے کہا کہ ’یہ تو روتی بھی سُروں میں ہے۔‘
کہا جاتا ہے کہ اللہ وسائی کے بچپن کے دنوں میں صوفیانہ موسیقی کی ایک تقریب میں انھوں نے کچھ نعتیں سنائیں۔
بچی نے جب پنجابی کلام گانا شروع کیا تو تقریب کے میزبان اٹھے اور لڑکی کے سر پہ ہاتھ رکھ کر کہا کہ ’لڑکی تو ایک دن آسمان کو چھوئے گی۔‘ اُس وقت یہ محض ایک خواب، ایک خیال تھا مگر آنے والے برسوں میں اس لڑکی نے موسیقی ہی نہیں بلکہ دلوں پر بھی راج کیا۔
یہ اللہ وسائی آج ہی کے روز 21 ستمبر1926 کو قصور میں موسیقاروں کے خاندان میں پیدا ہوئی۔
کچھ بڑی ہوئی تو خاندان نے قسمت آزمانے کے لیے کلکتہ کا رُخ کیا جو اُس وقت غیرمنقسم ہندوستان میں فلم میکنگ کا سب سے بڑا مرکز تھا۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پنچابی فلمیں بھی کلکتہ میں ہی بنا کرتی تھیں۔ اسی زمانے میں اللہ وسائی بے بی نورجہاں ہوئیں اور انہوں نے بہت سے مشہور گیت گائے جن میں ’لنگھ آ جا پتن چناں دا او یار، لنگھ آ جا‘، نمایاں ہیں مگر بات نہ بن سکی تو لاہور واپس آ گئیں مگر کلکتہ کے قیام کے دوران ’بے بی نورجہاں‘ نے ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کی جس کا اظہار اُن کے طرزِ گائیکی سے بھی ہوتا ہے۔
آواز میں تو جادو تھا ہی مگر فلموں میں موقع پانے کے لیے اداکاری کی شُدبُد ہونا بھی ضروری تھا۔
بے بی نور جہاں میں یہ دونوں گُن تھے، آواز میں رچاؤ تو تھا ہی بلکہ چہرے کی سندرتا بھی دیکھنے والے کو متوجہ کر لیتی۔

سنہ 1942 بے بی نور جہاں کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے (فوٹو: حنا درانی)

دل سکھ پنچولی نے لاہور میں فلمی سٹوڈیو قائم کیا تو اس شہرِ پُرکمال میں بھی فلم سازی کا آغاز ہوا۔ ہالی ووڈ اداکار اور پروڈیوسر آدتیہ پنچولی ان کے بھتیجے ہیں جو ’منفی خبروں‘ کی وجہ سے اکثر شہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ دل سکھ پنچولی نے تقسیم سے قبل فیروز پور روڈ پر مسلم ٹاؤن میں پنچولی سٹوڈیوز کے نام سے ایک نیا سٹوڈیو قائم کیا تھا اور واپسی کے لیے پرامید تھے مگر وہ کبھی سرحد کے اس پار نہ آ سکے۔
یہ قصہ پھر کبھی سہی، بات بے بی نور جہاں کی ہو رہی تھی تو دل سکھ پنچولی نے سنہ 1939 میں اپنے پروڈکشن ہاؤس کے تحت دوسری فلم ’گل بکاؤلی‘ بنائی تو بے بی نور جہاں کو چائلد آرٹسٹ کے طور پر کاسٹ کیا جنہوں نے فلم میں مرکزی کردار کی چھوٹی بہن کا کردار ادا کیا۔
فلم کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر اور نغمہ نگار ولی صاحب تھے۔ نارووال سے تعلق رکھنے والے یہ موسیقار لتا منگیشکر کے گاڈفادر تو تھے ہی جنہیں انہوں نے فلم ’مجبور‘ کے ذریعے بڑا بریک دیا بلکہ شمشاد بیگم، سدھا مہوترا اور سریندر کور کو موسیقی کے منظرنامے میں متعارف کروانے کا سہرا بھی انہی کے سر بندھتا ہے جب کہ موسیقاروں میں مدن موہن جیسے مہان کلاکار اُن کے معاون رہ چکے تھے۔ نور جہاں کے کریئر کو آگے بڑھانے میں بھی ماسٹر جی کا بہت اہم کردار ہے۔
اس فلم کا گیت ’شالا جوانیاں مانیں آکھا نہ موڑیں پی لے…‘ سپرہٹ رہا۔ اس گیت کے بعد اللہ وسائی کی شہرت پنجاب بھر میں پھیل گئی۔
محمود الحسن اُردو نیوز کے لیے اپنے ایک مضمون میں امرتا پریتم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’یہ گانا جس زمانے میں ہٹ ہوا امرتا پریتم لاہور میں رہتی تھیں۔ انہوں نے لکھا کہ اس گانے نے دھوم مچا دی تھی اور نور جہاں کی سریلی اور رسیلی آواز نے سب کو حیران کر دیا تھا۔‘
سنہ 1942 بے بی نور جہاں کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ اس سال وہ ’بے بی نور جہاں‘ سے نور جہاں ہوئیں۔
دل سکھ پنچولی نے اپنی فلم ’خاندان‘ کے لیے ایک نئے ہدایت کار شوکت حسین رضوی کا انتخاب کیا، فلم کی کہانی امتیاز علی تاج نے لکھی تھی جب کہ موسیقار تھے ماسٹر غلام حیدر، فلم کے زیادہ گیت نورجہاں اور کچھ شمشاد بیگم نے گائے تھے۔

نورجہاں نے شوکت رضوی کے ساتھ شادی اپنے خاندان سے بغاوت کرتے ہوئے کی تھی (فوٹو: شوبز مسالحہ)

یہ لاہور کے نوجوان اداکار پران کی پہلی فلم تھی جو آنے والے برسوں میں ہندی فلم انڈسٹری کے کامیاب ترین ولن بنے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد نور جہاں بالی ووڈ کی صفِ اول کی اداکارہ اور گلوکارہ کے طور پر ابھریں۔
فلم ’خاندان‘ کی کامیابی کے ساتھ ہی شوکت حسین رضوی نے تو ممبئی کے لیے رختِ سفر باندھا ہی بلکہ نور جہاں بھی اُن کے ساتھ ہو لیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو چاہنے لگے تھے اور جلد ہی دونوں نے شادی کر لی۔ نورجہاں نے یہ شادی اپنے خاندان سے بغاوت کرتے ہوئے کی تھی۔
اپنی سوانح عمری ’اینڈ پران‘ میں پران اس پریم کہانی کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’فلم کی شوٹنگ کے وقت ہی انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ہدایت کار اور ہیروئن ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور انہیں خوشی ہوئی جب دونوں نے شادی کر کے ایک دوسرے کو اپنا لیا۔‘
نورجہاں شادی کرنے کے بعد بھی فلم نگری کی ضرورت بنی رہیں۔ یہ سال 1943 میں ریلیز ہونے والی فلم ’دُہائی‘ تھی جس میں گلوکارہ نے پہلی بار اپنی آواز اپنے علاوہ کسی اور اداکارہ کو مستعار دی اور یوں پس پردہ گائیکی کا آغاز کیا۔
سال 1943 میں نور جہاں کی فلم ‘نوکر‘ اور سال 1944 میں ’دوست‘ ریلیز ہوئی۔ ان دونوں فلموں کے ہدایت کار شوکت حسین رضوی تھے۔ انہوں نے اگلے چند برسوں کے دوران کئی کامیاب فلموں میں کام کیا جن میں ’بڑی ماں‘، ’زینت‘، ’گاؤں کی گوری‘، ’انمول گھڑی‘، ’‘مرزا صاحباں‘ اور ’جگنو‘ شامل ہیں۔
فلم ’انمول گھڑی‘ کا گیت،
’آواز دے کہاں ہے
دنیا میری جواں ہے‘
یا فلم ’جگنو‘ کا گیت،
 ’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘ دہائیاں گزر جانے اور موسیقی کے رجحانات تبدیل ہو جانے کے باوجود اب بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہیں۔
یہ فلم ’جگنو‘ ہی تھی جس کے ذریعے لیجنڈ دلیپ کمار کو بڑی بریک تھرو ملی تھی اور ان دونوں کے درمیان دوستی بھی اسی زمانے میں ہوئی تھی جو دمِ آخر تک قائم رہی اور ’سرحد‘ بھی اس دوستی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی۔

فلم جگنو سپرہٹ رہی اور دلیپ کمار کا ایک سپرسٹار کے طور پر جنم ہوا (فوٹو: آئی ایم بی ڈی)

بات فلم ’جگنو‘ کی ہو رہی تھی، اس فلم کے ہدایت کار شوکت حسین رضوی تھے۔ فلم تقسیم سے کچھ عرصہ قبل ریلیز ہوئی تھی جس پر اُس وقت پابندی لگ گئی جب ممبئی کے ایک فلمی جریدے ’فلم انڈیا‘ نے مضمون بعنوان ’جگنو…فحش، بے ہودہ اور قابلِ نفرت فلم‘ لکھا۔
اس فلمی تبصرے کے بعد کچھ ہفتوں کے لیے ممبئی میں فلم سنیماؤں سے اتار لی گئی اور اگلے ہی کچھ روز میں ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس فلم کی نمائش پر پابندی لگ گئی، تاہم فلم کے کچھ حصے سنسر کیے جانے کے بعد فلم کو دوبارہ ریلیز کرنے کی اجازت مل گئی، یہ سپرہٹ رہی اور دلیپ کمار کا ایک سپرسٹار کے طور پر جنم ہوا مگر نور جہاں کو ’ملکۂ ترنم‘ کا خطاب بہت پہلے مل چکا تھا۔
حیران مت ہوئیے، حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ یہ بحث طلب نکتہ ہے کہ اِن خطابات کا مقصد تشہیر ہوا کرتا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا جا سکے یا ان خطابات کا کوئی میرٹ بھی ہوتا تھا؟ یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ نورجہاں کو 16 برس کی عمر میں ہی ’نغموں کی رانی‘ کا خطاب مل چکا تھا۔
معروف محقق اور مؤرخ عقیل عباس جعفری بی بی سی کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’ماسٹر غلام حیدر نے ’گل بکاؤلی‘ کے کامیاب تجربے کو مدِنظر رکھتے ہوئے ’خاندان‘ کے زیادہ تر گانوں کو نورجہاں کی آواز سے آراستہ کیا۔ اس فلم کے جس اشتہار میں انہیں ’نغموں کی رانی‘ لکھا گیا ہے، وہ لاہور کے روزنامہ انقلاب میں 5 فروری 1942 کو شائع ہوا تھا اور جناب امجد سلیم علوی کے توسط سے بہم ہوا ہے۔ اس میں نور جہاں کو نغموں کی رانی لکھا گیا ہے۔‘
عقیل عباس جعفری کی تحقیق کے مطابق نورجہاں کو ملکۂ ترنم کا خطاب 18 برس کی عمر میں فلم ’بڑی ماں‘ کی ریلیز سے قبل مل چکا تھا، وہ لکھتے ہیں، ’25 جون 1945 کو ہفت روزہ چترا میں اس فلم کا جو اشتہار شائع ہوا تھا، اس میں نور جہاں کے نام سے پہلے ’ملکۂ ترنم‘ کا خطاب درج ہے۔‘
تقسیم ہوئی تو ملکۂ ترنم نور جہاں اور شوکت حسین رضوی نے پاکستان کا انتخاب کیا۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ اُس وقت بالی ووڈ کی کامیاب ترین جوڑ تھی۔ اداکاراؤں میں نورجہاں اور ثریا راج کر رہی تھیں جب کہ گلوکاری میں نور جہاں اپنا سکہ جما چکی تھیں جب کہ سید شوکت حسین رضوی متعدد کامیاب فلموں کے ہدایت کار تھے۔ 
انڈین ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم ’سکرول‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ’سال 1947 میں اللہ رکھی وسائی کے اس اعلان پر ’جہاں پیدا ہوئی ہوں وہاں ہی جاؤں گی‘ ہندی فلم انڈسٹری سکتے میں آ گئی تھی۔

نور جہاں اور شوکت حسین رضوی نے نئے ملک میں فلم انڈسٹری کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے محنت کی (فوٹو: ڈان امیجز)

’تقسیم کے وقت پنجاب میں اُن کا آبائی گاؤں قصور نئے ملک پاکستان میں شامل ہوا تھا، نورجہاں نے ممبئی سے رَحتِ سفر باندھا اور لاہور منتقل ہو گئیں۔‘
نور جہاں اور شوکت حسین رضوی نے نئے ملک میں فلم انڈسٹری کو دوبارہ سے اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے جستجو شروع کی۔ تقسیم کے دوران تباہ ہوچکا شوری سٹوڈیو شوکت حسین رضوی کو الاٹ ہوا جسے ’شاہ نور سٹوڈیو‘ کا نیا نام دیا گیا۔
یہ سٹوڈیو معروف شوری خاندان کا تھا جو تقسیم کے وقت انڈیا ہجرت کر گیا تھا۔ روشن لال شوری اور اُن کے صاحب زادے روپ کمار شوری لاہور کی فلمی صنعت کا معتبر حوالہ تھے جب کہ معروف اداکارہ اور لارا لپا گرل مینا شوری روپ کمار شوری کی اہلیہ رہی تھیں۔
لاہور کا ذکر نکلا ہے تو تقسیم کے بعد نور جہاں اور شوکت حسین رضوی نے ڈیوس روڈ کے ایک شاندار بنگلے ’شیش محل‘ میں رہائش اختیار کی۔
معروف صحافی علی سفیانی آفاقی کی کتاب ’فلمی الف لیلیٰ‘ میں اُن کا گُل نامی اپنے ایک جاننے والے کے ساتھ مکالمہ کچھ یوں ہے:
’گل صاحب نے کہا، ’شوکت صاحب اور نور جہاں شیش محل میں رہتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہے شیش محل؟‘
ہم نے انکار میں سر ہلا دیا۔
بولے، ’وہ ڈیوس روڈ پر ہے۔ بڑی شاندار اور بڑی عمارت ہے، پورا محل ہے۔‘
تاریخ کا جبر دیکھیے کہ اس محل کے نام و نشان بھی اب مٹ چکے ہیں۔
’سکرول‘ میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ’سال 1951 میں کہیں جا کر نور جہاں کی پاکستان میں پہلی فلم ریلیز ہوئی۔ لاہور تقسیم سے قبل فلم سازی کا ایک بڑا مرکز تھا لیکن تقسیم کے دوران ہونے والے فسادات کے دوران بڑے سٹوڈیوز جلا دیے گئے تھے اور مقامی فلم ساز فلمیں بنانے کے لیے بنیادی سہولیات سے بھی محروم تھے۔ نور جہاں کے شوہر سید شوکت حسین رضوی، جو اُن کی بہت سی ہٹ فلموں کے ہدایت کار رہے تھے، اُترپردیش میں اپنی جائیداد کے بدلے اپنے اور نور جہاں کے نام شوری سٹوڈیوز الاٹ کروانے میں کامیاب رہے تھے۔‘

نور جہاں کی پاکستان میں ریلیز ہونے والی پہلی فلم ’چن وے‘ تھی (فوٹو: شوبز مسالحہ)

نور جہاں کی پاکستان میں ریلیز ہونے والی پہلی فلم ’چن وے‘ تھی اور یہ اُن کی ہی نہیں بلکہ کسی بھی خاتون کی بطور ہدایت کارہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم کی ہدایات شوکت حسین رضوی نے اس لیے نہیں دی تھیں کیوں کہ وہ پنجابی پس منظر نہیں رکھتے تھے تاہم، وہ نورجہاں کی مدد کرتے رہے۔
’تیرے مکھڑے دا کالا کالا تِل وے‘،
’وے توں بھُل نہ جاویں‘،
اور
’تیرے لونگ دا پیا لشکارا‘
ایسے گیتوں نے پاکستانی فلمی سنگیت کے سنہری دور کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اس فلم کے گیت،
’چن دیا ٹوٹیا
وے دلاں دیا کھوٹیا‘
نے یہ ثابت کر دیا کہ نور جہاں حقیقت میں ملکۂ ترنم ہیں۔ یہ فلم سپرہٹ رہی۔ اُن کی اس عہد کی نمایاں فلموں میں ’دوپٹہ‘، ’انتظار‘، ’نیند‘ اور ’کوئل‘ ناصرف باکس آفس پر کامیاب رہیں بلکہ یہ اپنے یادگار گیتوں کی وجہ سے بھی یاد رکھی جائیں گی۔
فلم ’انتظار‘ کے گیت،
’آ گئے بلم پردیسی، سجن پردیسی‘،
’چھَن چھَن ناچوں گی‘،
’اوہ جانے والے رے
ٹھہرو ذرا رُک جاؤ‘،
’جس دن سے پیا دل لے گئے‘،
یا فلم ’نیند‘ کا گیت،
’چھَن چھَن چھَن
باجے پائل باجے‘
یا فلم ’کوئل‘ کا گیت،
’رم جھم رم جھم پڑے پھوار
تیرا میرا نِت دا پیار‘

شوکت حسین رضوی سے طلاق لینے کے بعد ملکۂ ترنم نے اعجاز سے شادی کی (فوٹو: حنا درانی)

اس عہد کے نمائندہ ہیں جب نور جہاں پاکستان کی موسیقی پر راج کر رہی تھیں تاہم سال ’1961‘ میں ریلیز ہونے والی فلم ’غالب‘ کے بعد نور جہاں نے اداکاری کو خیرباد کہہ دیا اور اپنی توجہ موسیقی کی جانب مبذول کر لی۔
اس دوران میڈم کی نجی زندگی تلاطم کا شکار رہی۔ انہوں نے اپنے خاوند شوکت حسین رضوی پر بے وفائی کا الزام لگایا۔
ملکۂ ترنم کے انٹرویوز پر مبنی کتاب ’کہاں تک سنو گے‘ میں انہوں نے کہا تھا کہ ’انہوں نے شوکت حسین رضوی سے محبت کی شادی کی تھی مگر 15 برس گزرنے کے بعد وہ اداکارہ یاسمین اور دیگر خواتین کے عشق میں مبتلا ہو گئے تھے تو انہیں اپنے بچوں کے لیے مجبوراً علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔‘
شوکت حسین رضوی نے بعدازاں ایک کتابچہ لکھ کر ان تمام الزامات کی تردید کی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ نورجہاں سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے اداکارہ یاسمین سے ہی شادی کی تھی۔
میڈم کا کرکٹ لیجنڈ محمد نذر سے افیئر بھی زبان زد عام رہا جسے انہوں نے اپنے اسی انٹرویو میں بے بنیاد قرار دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پریم کہانی کا درد ناک انجام نذر محمد کے کرکٹ کریئر کے اچانک اختتام پر ہوا کیوں کہ انہوں نے نور جہاں سے عشق میں اپنا بازو تڑوا لیا تھا۔
شوکت حسین رضوی سے طلاق لینے اور اداکاری سے کنارہ کرنے کے بعد ملکۂ ترنم کی زندگی میں اعجاز آئے۔ یہ سال 1959 کی بات ہے، اس وقت نورجہاں کی عمر 33 برس جب کہ اعجاز کی عمر 24 برس تھی۔
نورجہاں سپرسٹار ہونے کے علاوہ ’ملکۂ ترنم‘ کا خطاب بھی پا چکی تھیں جب کہ اعجاز فی الحال فلمی دنیا میں آگے بڑھنے کے جتن کر رہے تھے۔
سینیئر شوبز صحافی طاہر سرور میر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’نورجہاں اور اعجاز کی شادی اور دونوں کے رشتے کے بارے میں نگارخانوں میں مشہور ہوا تھا کہ نورجہاں نے اعجاز کو یوں رکھا جیسے ’ہتھیلی کا پھپولا‘۔

نورجہاں کی بیٹی حنا بتاتی ہیں کہ ‘میں نے اپنی ماں کو اپنے باپ کے عاشق کے طور پر دیکھا ہے۔‘ (فوٹو: حنا درانی)

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’اعجاز کی حیثیت ’انوکھے لاڈلے‘ کی سی تھی۔ اگرچہ اعجاز نور جہاں کے شوہر تھے لیکن نورجہاں یوں ظاہر کرتیں جیسے وہ ان کے محبوب ہوں۔
اُن کی بیٹی حنا بتاتی ہیں کہ ‘میں نے اپنی ماں کو اپنے باپ کے عاشق کے طور پر دیکھا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ماں ابا کے لیے کپڑے خود استری کر رہی ہیں، پینٹ کوٹ کے ساتھ میچنگ جرابیں تک خود پہنا رہی ہیں۔ ابا کے نہانے کا پانی گرم ہو رہا ہے۔ ماں ابا کے ناز اٹھا رہی ہیں۔ ہم بہنوں نے دیکھا کہ میری ماں جب بھی ابا کے سامنے آئیں سولہ سال کی لڑکی بن گئیں۔‘
یہ رشتہ بھی غلط فہمیوں کا شکار ہوا یا ملکۂ ترنم کے اپنے الفاظ میں، اعجاز (درانی) نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔
چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک ملکۂ ترنم نور جہاں اپنے سُروں کا جادو بکھیرتی رہیں۔ انہوں نے بہت سے ملی نغمے بھی گائے جن میں،
’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے ‘
یا
 ’اے وطن کے سجیلے جوانو‘
اور
’رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو‘،
شامل ہیں۔ یہ وہ قومی ترانے ہیں جو آج بھی قوم کا لہو گرمانے کے کام آتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے قومی ترانے گا کر موسیقی کی ایک نئی جہت متعارف کروائی جس میں جوش تھا، ولولہ تھا اور ایک نیا جذبہ تھا۔
’ہیرلڈ‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں عامر حسین لکھتے ہیں، ’یہ کہا جاتا تھا کہ 1965 کی جنگ کے دوران نور جہاں صوفی تبسم کی جانب سے ان کے لیے خاص طور پر لکھے ہوئے گیتوں کے ساتھ پہنچ جاتیں اور دھرتی کے سپاہیوں کے لیے (گیت) ریکارڈ کرنے پر اصرار کرتیں۔ وہ کھڑے کھڑے موسیقی ترتیب دیتیں۔ یہ کہانی درست ہے یا نہیں، مگر حب الوطنی کے جذبے سے بھرپور اُن کے یہ نغمے ملکۂ ترنم نورجہاں کے نئے دور کا آغاز ثابت ہوئے اور انہوں نے موسیقی کے سامعین کی ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔‘
نور جہاں نے اداکاری کی تو اپنے عہد کی کامیاب ترین اداکارہ قرار پائیں۔ گلوکاری کی تو برصغیر و پاک و ہند کے سنگیت کا معتبر ترین حوالہ قرار پائیں۔
ملکۂ ترنم نے اُردو اور پنچابی گیت یکساں مہارت سے گائے، اُن کی گائیکی میں تنوع ہے، کلاسیکی آہنگ ہے اور سوز ہے،  اُن کی نقل کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ ان کا ہر گیت پُرکمال ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کے مطابق ’برصغیر کی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’وہ اپنے کیریئر کے آغاز میں نور جہاں کی طرح گانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔‘

لتا جی نے کہا تھا کہ ’وہ گلوکارہ کے طور پر کیریئر شروع سے قبل ہی نورجہاں سے متاثر تھیں۔‘ (فوٹو: سکرول)

اس مضمون کے مطابق لتا جی نے کہا تھا کہ ’وہ گلوکارہ کے طور پر کیریئر شروع سے قبل ہی نورجہاں سے متاثر تھیں کیوں کہ ان کا انداز منفرد تھا اور دوسرا ان کی آواز بھی کمال کی تھی جب کہ کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کرنے کی وجہ سے وہ یہ جانتی تھیں کہ فلموں میں گلوکاری کے لیے کیا الگ کرنا پڑتا ہے۔‘
ملکۂ ترنم نور جہاں کا آخری گیت ’کیہہ دم دا بھروسہ یار، دم آوے نہ آوے‘ تھا۔ ملکۂ ترنم اس گیت کے بعد صرف تین برس ہی زندہ رہیں اور 23 دسمبر 2000 کو طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کر گئیـں مگر اُن کا فن زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا جیسا کہ انہوں نے اپنے ایک گیت کے ذریعے بہت پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا،
’گائے گی دنیا گیت میرے‘
سریلے انگ میں، نرالے رنگ میں‘
ملکۂ ترنم نورجہاں برصغیر پاک و ہند کی فلمی سنگیت کی روایت کا اہم ترین حوالہ ہیں جنہوں نے ہزاروں ایسے نغمے گائے جو آج بھی دنیا گاتی ہے اور سر دھنتی ہے۔ 

شیئر: