Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گاڑی چوری غیر معمولی واقعہ ہے‘ سیاحتی مقام وادی ہنزہ میں کار لفٹر کہاں سے آگئے؟

ہنزہ میں چوری کے پے درپے واقعات نے مقامی لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے (فوٹو: ہنزہ پولیس)
سیاحتی مقام وادی ہنزہ میں گذشتہ ایک ہفتے کے اندر چار گاڑیاں چوری ہونے کے واقعات سامنے آئے، پولیس نے گاڑیاں تو برآمد کر لی ہیں مگر چور گرفتار نہ ہوسکے۔
گلگت بلتستان کی خوبصورت وادی ہنزہ دلفریب سیاحتی مقامات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے اس وادی میں سیاحت کی ایک وجہ پرامن ماحول اور زیرو کرائم ہے یعنی اس گاؤں میں جرائم کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے، وادی ہنزہ میں قتل اور ڈکیتی تو دور کی بات معمولی چوری کے واقعات بھی بہت ہی کم رونما ہوتے ہیں۔ 
مگر وادی ہنزہ میں پہلی بار گاڑی چوری کے واقعات پیش آنے لگے ہیں جو مقامی لوگوں کے ساتھ سیاحوں کے لیے باعث تشویش ہے،  ہنزہ گوجال اور سست کے علاقوں میں گذشتہ ایک ہفتے کے اندر چار گاڑیاں چوری کی گئی ہیں جو پولیس نے ریکور کرلیں مگر اس چوری میں ملوث کوئی بھی ملزم قانون کی گرفت میں نہ آسکا۔
کارلفٹنگ کے واقعات   
ہنزہ میں چوری کے پے درپے واقعات نے مقامی لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس گاؤں کے رہائشی اکبر علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس علاقے میں گاڑی کی چوری نئی بات ہے، یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس کی وجہ سے ہم سب پریشان ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ناصر آباد شناکی، گوجال اور سست میں گاڑیوں کی چوری ہوئی مگر چور کی قسمت خراب تھی جب چور نے پہلی گاڑی گوجال سے چوری کی تو کچھ میل فاصلہ طے کرکے گاڑی میں پیٹرول ختم ہوا جس کی وجہ سے چور نے گاڑی اسی جگہ چھوڑ دی اور دوسری گاڑی ساتھ لے گیا۔
مقامی نوجوان نے بتایا کہ کار لفٹر نے کچھ آگے جاکر پھر سست کے مقام پر تیسری گاڑی کا لاک توڑا اور بڑی گاڑی چوری کی مگر ہنزہ کی حدود سے باہر نہ لے جاسکا اور جنگل میں گاڑی چھوڑ کر فرار ہوا۔ ہنزہ کے رہائشی یارحسین کا کہنا تھا کہ چوکیوں پر پولیس کی نفری کی تعداد بہت کم ہے۔ ہزاروں کی آبادی ہے اور اوپر سے وی آئی پی سیاحوں کے پروٹوکول پر مامور کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے چوری کے واقعات سراٹھا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہنزہ میں گاڑی چوری کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، یہاں گاڑی بغیر لاک کرکے کھڑی کی جاتی ہے۔ مزید کہا کہ کارلفٹر گروہ غیر مقامی معلوم ہوتے ہیں، تاہم ان کے ساتھ مقامی افراد بھی ملوث ہوسکتے ہیں۔
پولیس کا موقف 
ہنزہ پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او عاشق حسین نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’گاڑیوں کو چوری کرنے کی شرارت کی گئی ہے، اگر کوئی چوری کرنا چاہتا تو گاڑیوں کو چھوڑ کر نہ جاتا۔‘
ایس ایچ او کے مطابق تمام گاڑیاں برآمد کرکے مالکان کے حوالے کردی گئی ہیں مگر ملزمان کی تلاش جاری ہے۔ پولیس نے بتایا کہ ایک مقام پر سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے جس میں مبینہ چور دکھائی دے رہا ہے جس کی شناخت ہورہی ہے۔

ایس ایچ او نے کہا کہ ’گاڑی چوری کے واقعات پولیس انتظامیہ کے لیے ایک امتحان بن گئے ہیں۔‘ (فوٹو: ہنزہ پولیس)

ایس ایچ او عاشق حسین کے مطابق ’ہنزہ میں سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے، اسی لیے چیک پوسٹوں پر نرمی کی جاتی ہے جس کا چور فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’وادی ہنزہ میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں اسی لیے گاڑی چوری کے واقعات پولیس انتظامیہ کے لیے ایک امتحان بن گئے ہیں۔ ان کے مطابق رواں سال چوری کے چار بڑے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔‘
سست کے علاقے میں بھی گاڑی چوری کا واقعہ رپورٹ ہوا۔ مقامی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او فداحسین نے کہا کہ ’برآمد ہونے والی گاڑیوں کے لاک توڑے گئے ہیں، جبکہ ایک گاڑی کی پیٹرول ٹینکی کو توڑ کر تیل نکالا گیا ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ کارلفٹر گینگ کو پکڑنے کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جو بہت جلد ملزمان تک پہنچ جائیں گی۔
دوسری جانب سیاحوں کے لیے بھی کارلفٹنگ کے واقعات حیران کن ہیں۔ ٹور گائیڈ انعام اللہ نے بتایا کہ ہنزہ اس وقت سیاحوں کا مسکن بن چکا ہے، ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد ہنزہ کے پرامن ماحول کی وجہ سے یہاں رخ کرتی ہے۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ شرپسند ہنزہ کے پرامن ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں اگر چوری کے واقعات بڑھے تو سیاحت کے شعبے کو دھچکا لگے گا۔ 

شیئر: