وزیراعلٰی مریم نواز کے طلبہ کے لیے پروجیکٹس کتنے مقبول ہیں؟
وزیراعلٰی مریم نواز کے طلبہ کے لیے پروجیکٹس کتنے مقبول ہیں؟
پیر 30 ستمبر 2024 5:21
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
وزیراعلٰی مریم نواز نے پنجاب بھر میں طلبہ کے لیے 25 ارب روپے کی سکالرشپس کا بھی اعلان کیا ہے۔ (فائل فوٹو: مریم نواز فیس بک)
صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا سارا زور ایسے منصوبے لانے پر ہے جن سے کسی نہ کسی طرح نوجوان استفادہ کر سکتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ منصوبے کس حد تک کارآمد ہیں اور ن لیگ کس حد تک نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ سب سے پہلا پروجیکٹ پنجاب میں طلبہ کے لیے قسطوں پر موٹر سائیکلز دینے کا شروع کیا گیا۔
محمد عرفان پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور وہ ان چھ ہزار طلبہ میں سے ایک ہیں جنہوں نے موٹر سائیکل سکیم کی الیکٹرک بائیک کیٹیگری کے لیے درخواست دی تھی۔ تاہم اب وہ شش و پنج میں ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سکیم تو بہت اچھی ہے لیکن پہلے اس کی جزئیات نہیں بتائی گئی تھیں۔ جب میں نے کوالیفائی کر لیا تو مجھے ڈاؤن پیمنٹ کے لیے ایک لاکھ روپے جمع کروانے کا کہا گیا کیونکہ الیکٹرک بائیک کی قیمت تین لاکھ روپے تھی۔ میرے پاس ایک لاکھ روپیہ جمع کروانے کے لیے نہیں تھا اس لیے پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں ای بائیک نہیں لے رہا۔‘
تاہم پنجاب یونیورسٹی کی ہی ایک طالبہ نفیسہ خان نے سرکاری سکیم سے ملنے والی ای بائیک کے لیے ڈاؤن پیمنٹ جمع کروا دی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بابت خاصی پُرجوش ہیں۔
حکومتی سکیم کے مطابق پنجاب کے 20 ہزار طلبہ کو الیکٹرک اور پیٹرول موٹر بائیکس ملنا تھیں۔ اس سکیم کے خدوخال نگراں حکومت کے دور میں محسن نقوی نے وضع کیے تھے تاہم مریم نواز حکومت نے اس سکیم میں ترامیم کر کے اسے لانچ کر دیا۔
صرف یہی نہیں وزیراعلٰی مریم نواز نے پنجاب بھر میں طلبہ کے لیے 25 ارب روپے کی سکالرشپس کا بھی اعلان کیا ہے جس میں امتیازی نمبر لینے والے طلبہ اپنی مرضی کے کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلہ لے سکیں گے۔
ایک اور پروجیکٹ جس پر مسلم لیگ ن کی حکومت سب سے زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے وہ ہے نواز شریف آئی ٹی سٹی، جس کو سی بی ڈی بیدیاں روڈ پر تعمیر کر رہا ہے۔ ن لیگ پُرامید ہے کہ بڑے پیمانے پر طلبہ کو آئی ٹی کی مفت تعلیم اور سٹارٹ اپس کے لیے مواقع دینے سے وہ اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کر لے گی۔
اسی طرح ٹیوٹا میں اس وقت آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور سائبر سکیورٹی جیسے کورسز شروع کروائے گئے ہیں جہاں اس وقت چار ہزار نوجوان یہ ہنر سیکھ رہے ہیں۔ حکومت یہ تعداد 40 ہزار تک لے جانا چاہتی ہے جبکہ وزیراعلٰی نے پنجاب کی تمام یونیورسٹیز میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ شروع کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
اور آخر میں ن لیگ کی لینڈ مارک لیپ ٹاپ سکیم بھی واپس آ رہی ہے اور حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جلد ہی ایک مرتبہ پھر پنجاب کے طالب علموں کو مفت لیپ ٹاپس دیے جائیں گے۔
یہ منصوبے نوجوانوں کے لیے کتنے متاثر کُن ہیں؟
اس سوال کا واضح جواب شاید نہ مل سکے کیونکہ کئی طرح کے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں تو جب جب حکومت نے ان منصوبوں کا اعلان کیا ہے تو مخالف سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ اور اس کی واضح مثال وزیراعلٰی مریم نواز کے اپنے فیس بک آئی ڈیز پر ایسی پوسٹس پر آنے والے ری ایکشنز ہیں۔ جس میں ہنسنے والی (لافٹر) ایموجی دوسرے نمبر پر دکھائی دیتی ہے۔
ایسا وقت بھی تھا جب لافٹر ایموجی پہلے نمبر پر بھی رہی ہے۔ تاہم اب اس میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ شروع کی نسبت اب ان منصوبوں سے متعلق پوسٹس کے نیچے مثبت کمنٹ کی تعداد بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔
دوسرا ردعمل وہ طلبہ خود ہیں جو براہ راست حکومتی منصوبوں سے مستفید ہوئے ہیں۔
یہ سوال جب وفاقی حکومت میں وزیراعظم کے مشیر امور نوجوان رانا مشہود سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تو اب براہ راست فیڈ بیک لے رہے ہیں اور ہر صوبے میں طلبہ کے ساتھ براہ راست سیمینار کیے ہیں، ہمیں تو بہت مثبت فیڈ بیک ملا ہے کیونکہ نوجوانوں کی اکثریت کے جس طرح پروپیگنڈے سے آنکھیں اور کان بند کیے گئے تھے انہوں نے کبھی دوسری سائیڈ کو سنا اور دیکھا ہی نہیں تھا۔ گراؤنڈ کی صورت حال اب بڑی حد تک بدل چکی ہے۔ اور یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ نوجوانوں کو بڑی تیزی سے سمجھ آ رہی ہے کہ ان کی اپنی زندگیوں کے لیے درست کیا ہے۔‘
تاہم کئی مبصرین اس رائے سے متفق دکھائی نہیں دیتے۔ محکمہ تعلیم سے وابستہ پروفیسر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’صورت حال لیپ ٹاپ دینے یا اس طرح کی چیزیں جو لبھانے کے لیے دی جائیں اس سے کافی آگے بڑھ چکی ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں جو نسل جوان ہوئی ہے وہ ہر چیز کو سیاسی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔ شاید ان کی رائے تبدیل کرنا ممکن نہ ہو جب تک ملک کے سیاسی حالات میں بہتری نہیں آتی۔ ہمیں یاد ہے جب شہباز شریف نے لیپ ٹاپ سکیم شروع کی تو انہیں لیپ ٹاپس کو استعمال کرنے والے کئی نوجوانوں نے کہا تھا کہ وہ ووٹ نہیں دیں گے، اور ان کے یہ تبصرے سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔‘