Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم نواز انٹرنیٹ کے دور میں پنجاب کے میلے دوبارہ بحال کر پائیں گی؟

مریم نواز نے پنجاب کے میلوں ٹھیلوں کو بحال کرنے کے احکامات دیے ہیں (فوٹو: ن لیگ فیس بک)
اگر آپ کا تعلق پنجاب کے دیہاتی علاقوں سے ہے اور آپ کی پیدائش بھی اسی اور نوے کی دہائی کی ہے تو یقیناً آپ موسم گرما میں منعقد ہونے والے ان گنت میلوں ٹھیلوں کے کلچر سے بخوبی واقف ہوں گے۔ جن کی آمد سے قبل لوگوں کو ایک لمبے انتظار سے گزرنا پڑتا تھا۔ ایک ہی جگہ پر شاپنگ، کھانے پینے کا سامان، کئی طرح کے کھیل اور رقص ان میلوں کی خاص پہچان تھے۔
پنجاب کے میلوں کا کلچر اتنا بڑا تھا کہ اس کے ساتھ روزگار کا سلسلہ بھی وابستہ ہو چکا تھا۔ بڑے میلوں میں ملک بھر سے لوگ شریک ہوتے تھے، درمیانے درجے کے میلوں میں قریب کے علاقوں کے اور چھوٹے میلوں میں بس ارد گرد کے دیہاتوں سے ہی لوگ خوشیاں بانٹنے کے لیے اکھٹے ہو جاتے تھے۔
احمد رضا پنجابی جو کہ پنجاب کی ثقافت کی حفاظت کے لیے کام کر رہے ہیں اس دور کے میلوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ ایک بڑا کُھلا دور تھا۔ دل و دماغ کھلے تھے۔ پانچ پانچ دن تک میلہ لگتا تھا۔ جس میں ایک دن صرف خواتین کے لیے مختص ہوتا تھا۔ لکی ایرانی سرکس، موت کا کنواں، کچی ٹاکی (اوپن ائیر سینما) اور لوک فنکاروں کے رقص اور گانے، ساری ساری رات لوگ ان چیزوں سے محظوظ ہوتے تھے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ہر میلے کا اپنا کلچر تھا۔ اور لوگ ایک سیزن میں دو چار میلے دیکھنے ضرور جاتے تھے۔ سہ پہر کو کبڈی اور دیگر کھیلوں کے مقابلوں کا ہونا اور دور دور سے کھلاڑیوں کا آنا اور میلہ جیتنا، ایک بڑا جذباتی معاملہ تھا۔ اب تو نظر لگ گئی ہے۔ پچھلے بیس سالوں سے ان میلوں ٹھیلوں کو ایک پسماندہ سوچ کے تحت منصوبہ بندی سے بند کیا گیا ہے۔ بظاہر یہ سب دہشت گردی کے سبب کیا گیا۔ لیکن پس پردہ شدت پسندانہ سوچ بھی تھی۔‘
خیال رہے کہ پنجاب میں بڑے بڑے میلوں میں جھنگ کا شاہ جیونہ، حافظ آباد کا بھڑی کا میلہ، دریائے چناب کے کنارے جلالپور جٹاں کا منڈہالہ، نورا کا میلا جہاں پر بیل دوڑ کا اکھاڑا سجتا ہے، اسی طرح پنجاب کے طول عرض میں بیساکھی کے ساتھ ہی ہزاروں میلے سجتے تھے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ میلے صرف پنجاب کے دیہاتی علاقوں کی شناخت تھے بلکہ شہروں جیسا کہ لاہور میں میلا شالا مار کا اور اسلام آباد کے نواح میں بری امام کا میلہ بھی اسی کلچر کی نشانیاں تھے۔

مریم نواز کا میلوں کی بحالی کا حکم

پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اقتدار سنبھالتے ہی پنجابی کلچر کے فروغ میں ایسے کام کیے ہیں جو اس سے پہلے کبھی کسی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے حصے میں نہیں آئے۔ 19 ستمبر کو لاہور میں ہونے والی ایک طویل پلاننگ کی میٹنگ میں جہاں اور بہت سے معاملات کا جائزہ لیا گیا وہیں وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ایک مرتبہ پھر پنجاب کے میلوں ٹھیلوں کو بحال کرنے کے احکامات بھی دیے ہیں۔

کیا دو دہائیوں سے بند کیے جانے والے میلے اب دوبارہ اپنی چمک موجودہ انٹرنیٹ کے دور میں بحال کر پائیں گے؟ (فوٹو: ابوبکر شیخ)

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دو دہائیوں سے بند کیے جانے والے میلے اب دوبارہ اپنی چمک موجودہ انٹرنیٹ کے دور میں بحال کر پائیں گے؟ شاید اس کا جواب ابھی دینا تھوڑا مشکل ہے۔ وقاص کرڑ، جو حافظ آباد کے بھڑی کے میلے سے خوب واقف رہے ہیں اور ہمیشہ اس میں شرکت کی اور اتنظامی امور بھی نبھائے، ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک خوشگوار حیرت ہے کہ ہمارے میلے دوبارہ بحال کیے جا رہے ہیں لیکن ساتھ تھوڑا عجیب بھی لگ رہا ہے کہ ہماری نئی نسل جس نے اس کلچر کو چکھا تک نہیں اور اس وقت سوشل میڈیا خاص طور پر صرف ٹک ٹاک کلچر کو سمجھتی ہے، وہ کیسے اب راغب ہو گی۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’انڈین پنجابی فلموں نے پنجابی کلچر کو سنبھالا دیا ہے اور اس کو گلوبل شناخت دی ہے ۔ ان کی فلموں میں میلے ٹھیلے کے کلچر دکھائے بھی جاتے ہیں شاید اس کا کوئی اثر ہو۔ لیکن جب آپ ایک لمبے عرصے تک کچھ چیزوں کو اپنے سسٹم سے نکال دیتے ہیں تو ان کی واپسی پھر مختلف احساس کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کلچر کو پہلے ہی جدید کلچر سے ایک ارتقائی مقابلہ کرنا تھا لیکن ہم نے تو اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے ختم کیا ہے۔‘
یاد رہے کہ نائن الیون کے بعد افغان جنگ کے اثرات جب پاکستان میں نمودار ہوئے تو دہشت گردوں نے ان میلوں کو بھی نشانہ بنایا جس کے بعد پنجاب کی حکومت نے ایک غیر محسوس انداز میں ہرطرح کے میلوں پرپابندی عائد کر دی تھی۔

شیئر: