وزیراعلٰی پنجاب کے تین بڑے فلیگ شپ منصوبوں لیپ ٹاپ سکیم، ٹورازم برائے معاشی استحکام اور سکلز ڈویلیمپنٹ فنڈ میں خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
حکومت پنجاب کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کی درخواست پر قائداعظم یونیورسٹی میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے ماہرین نے تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مذکورہ بالا تین منصوبوں میں مختلف قسم کی بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں
ماہرین نے مستقبل میں ایسی بے قاعدگیوں سے اجتناب کے لیے منصوبوں کے آغاز سے قبل تحقیق کی سفارش کی ہے۔
پنجاب پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ نے پائیڈ سے درخواست کی تھی کہ صوبے میں چلائے جانے والے ان منصوبوں پر تحقیق کر کے رہنمائی کی جائے کہ یہ کس حد تک مفید تھے اور آئندہ اس قسم کے منصوبوں کو کیسے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔
تحقیق کے بعد پیر کے روز جاری کی گئی پائیڈ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ بورڈ اور صوبے کے کئی دیگر اداروں نے اس تحقیق میں اشتراک کیا اور اس کو مرتب کرنے کے لیے تمام ضروری ڈیٹا فراہم کیا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے ماہرین ثوبیہ روز، تہمینہ اسد اور یاسر زادہ خان نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پنجاب حکومت کے منصوبوں کو مزید شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔
سکولوں کی لیپ ٹاپ سکیم سے یونیورسٹی طلبا مستفید
رپورٹ میں لیپ ٹاپ سکیم کے تفصیلی جائزے کے بعد بتایا گیا ہے کہ ُ2011 میں شروع کیے گئے اس پروگرام کے تحت بنیادی طور پر سکولوں کے طلبا کو لیپ ٹاپس دیے جانے تھے تاہم ممکنہ مسائل کی وجہ سے یہ سکولوں کے بچوں کے بجائے یونیورسٹی طلبا میں تقسیم کیے گئے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لیپ ٹاپ سکیم شروع کرنے سے پہلے اس کی فزیبیلیٹی سٹڈی نہیں کی گئی تھی۔ ’اگر اس کی فزیبیلیٹی سٹڈی کی جاتی تو یہ سکیم سے مستفید ہونے والوں کے بارے میں بہتر معلومات فراہم کر سکتی تھی جو کہ اس کی لاگت اور حتمی فوائد کے حصول میں مددگار ہوتی۔‘

اسی طرح یہ بھی طے نہیں کیا گیا کہ تقسیم کیے گئے لیپ ٹاپس کی کن طلبا کو ضرورت تھی۔ اس سکیم کا بنیادی مقصد نوجوانوں کے لیے آئی ٹی کے ماحول کو فروغ دینا تھا تاہم ان خصوصیات سے لیس یہ لیپ ٹاپ ایسے طلبا میں بھی تقسیم کئے گئے جو سماجیات، ریاضی، اور بنیادی سائنس کے طالب علم تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ہر مضمون کے طلبا کو ایک ہی طرح کے لیپ ٹاپس نہیں دیے جا سکتے کیونکہ آئی ٹی اور کمپیوٹر انجینئرنگ پڑھنے والے طلبا کو دوسرے مضامین کے طلبا کی نسبت بہتر صلاحیتوں والے کمپیوٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلی لیپ ٹاپ سکیم کے لیے مختلف طلبا کے مضامین کی ضروریات کے مطابق لیپ ٹاپ فراہم کرنا اہم ہے۔
رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی سطح پر ایسی سکیمیں کم آمدنی سے تعلق رکھنے والے سکولوں کے بچوں کو لیپ ٹاپ اور آئی ٹی کے آلات دینے کے لیے شر وع کی جاتی ہیں لیکن اس سکیم میں اس پہلو کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا۔
حکومتی لیپ ٹاپ مہنگے، مارکیٹ میں سستے
پائیڈ نے اپنی رپورٹ میں تجویز دی ہے کہ مستقبل میں ایسی سکیم کے لیے مختلف پہلو مدّنظر رکھے جائیں جیسے کہ :
انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی میں بہتری کے عوامل
سکیم کا طلبا کے سیکھنے کی صلاحیت پر اثرات کا جائزہ
یونورسٹیوں میں تحقیقی نتائج میں اضافہ اور بیرون ملک پاکستان کے ہنر مند افراد کی خدمات میں اضافہ
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب نے سرکاری سکیم کے لیے مہنگے لیپ ٹاپ خریدے۔
وزیراعلٰی پنجاب لیپ ٹاپ سکیم کے لیے خریدے گئے لیپ ٹاپ پہلے فیز میں 37،700 فی یونٹ، دوسرے میں 38،338، تیسرے میں41،289 اور چوتھے میں 45،937 کے تھے جبکہ یہی لیپ ٹاپ اس تمام وقت میں عام مارکیٹ میں 18 سے 25 ہزار میں دستیاب تھے۔
مزید براں ان لیپ ٹاپس کی فروخت کے بعد سروس کے لیے قائم کئے گئے سروس سینٹرز بھی ناکافی تھے۔
ابتدا میں سروس سٹیشنز ضلعی سطح پر قائم کیے گئے اور بعد میں ڈویژن سطح تک محدود کر دیے گئے لیکن وہاں بھی یہ سینٹرز طلبا کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے اور بہت سے طلبا کو ان سینٹرز کے متعلق آگاہی تک نہیں تھی۔
