لاہور کے نجی کالج میں مبینہ ریپ کا واقعہ: اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟
لاہور کے نجی کالج میں مبینہ ریپ کا واقعہ: اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟
منگل 15 اکتوبر 2024 12:57
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
نجی کالج کے سکیورٹی گارڈ پر ریپ کا الزام لگایا گیا ہے۔ (فوٹو اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گزشتہ دو روز سے ایک نجی کالج کے طلبہ مظاہرہ کر رہے ہیں۔
مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس کالج کی گلبرگ برانچ کے ایک سکیورٹی گارڈ نے ایک طالبہ کا ریپ کیا ہے۔ یہ احتجاج پیر کے روز شروع ہوئے جس میں دو درجن سے زائد طلبہ اور پولیس اہلکار کو زخم بھی آئے۔
منگل کو بھی طلبہ پنجاب اسمبلی کی عمارت کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔
لاہور پولیس کے مطابق گزشتہ جمعے کے روز ایک فیس بک پوسٹ سامنے آئی جس میں بتایا گیا کہ ایک نجی کالج میں ایک سکیورٹی گارڈ نے طالبہ کا ریپ کیا ہے۔ متاثرہ لڑکی کو ایک نجی ہسپتال میں داخل کروایا گیا ہے جبکہ سکیورٹی گارڈ غائب ہے۔ اور کالج انتظامیہ اس معاملے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس فیس بک پوسٹ کے بعد سوشل میڈیا کے تقریباً سبھی پلیٹ فارمز پر اس موضوع پر بات شروع ہو گئی۔ اور لوگوں نے غم و غصے کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔
ڈی آئی جی آپریشن لاہور فیصل کامران نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس کے فوری بعد ہم نے انہی ابتدائی معلومات پر کام شروع کر دیا۔ ایک تو ہم نے اس کالج برانچ کے تمام سکیورٹی گارڈز کو چیک کیا۔ ایک سکیورٹی گارڈ چھٹی پر تھا اسے حراست میں لے لیا گیا۔ دوسرا ہم نے اس نجی ہسپتال کا سارا ریکارڈ چیک کیا بلکہ اب تک تو ہم تقریباً تمام سرکاری اور نجی ہسپتالوں کا ریکارڈ چیک کر چکے ہیں۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اب تک کسی ہسپتال میں اس طرح کا ریپ وکٹم نہیں لایا گیا۔ تیسرا ہم نے کالج انتظامیہ سے مل کر اس متاثرہ بچی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اس کالج کی ایک بھی لڑکی نہیں ملی جو یہ کلیم کرے کہ اس کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے۔ پولیس نے یہ آفر بھی کی ہے کہ ہم اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیتے ہیں لیکن کوئی متاثرہ فریق تو ہو۔ قانونی عمل اس کے بغیر شروع نہیں ہو سکتا۔ جو سکیورٹی گارڈ حراست میں ہے وہ ایسے کسی بھی واقعے سے انکاری ہے اور وہ باقاعدہ چھٹی لے کر گیا تھا۔‘
پیر کے روز کیا ہوتا رہا؟
سوشل میڈیا پر چلنے والی پوسٹوں اور احتجاج کے بعد پیر کی صبح گلبرگ میں اس نجی کالج کی طلبہ نے احتجاج شروع کر دیا۔ کیونکہ معلومات صرف سوشل میڈیا ذریعے پھیل رہی تھیں۔ اس کالج کے مختلف واٹس ایپ گروپس میں طلبہ نے احتجاج کرنے کا پروگرام بنایا۔ جسے کالج کی سکیورٹی نے روکنے کی کوشش کی لیکن پھر پولیس کو بلا لیا گیا۔ اس مڈبھیڑ میں 27 افراد زخمی ہوئے تاہم ریسکیو 1122 کے مطابق یہ معمولی چوٹیں تھیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ طلبہ نے ایک ایس پی اور ایک اے ایس پی سمیت کئی پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا۔
اسی ہنگامے کے بیچ پنجاب کے وزیر تعلیم رانا سکندر بھی احتجاج کرتے طلبہ کے درمیان پہنچ گئے اور ان سے مذاکرات کیے۔ اس دوران انہوں نے اس کالج کی برانچ کا این او سی بھی معطل کر دیا اور ایک بیان دیا کہ اس کالج کی انتظامیہ نے سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر ریکارڈ ضائع کیا ہے۔
احتجاج کے حامی طلبہ ان کے اس بیان کو سوشل میڈیا پر دھڑا دھڑ شیئر کر رہے ہیں اور یہ الزام بھی عائد کر رہے ہیں کہ انتظامیہ معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
پیر کی شام کو اسی کالج کی جانب سے پڑھنے والی تمام بچیوں کے والدین کو ایک خط لکھا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ ایک سازش کے تحت ایڈمشنز کھلنے کے وقت میں ایک منظم مہم چلائی گئی ہے ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ مہم چلانے والوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے گی۔
سوشل میڈیا مہم میں ایک طالبہ کی تصاویر اور نام بھی شیئر کیا گیا جنہیں ریپ وکٹم بتایا گیا۔ تاہم رات گئے لاہور پولیس نے تصویر شیئر کی جانے والی لڑکی کے والدین کو بلایا جنہوں نے ویڈیو بیان میں بتایا کہ جس بچی کی ویڈیو شئیر کی جا رہی ہے، اس کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔
تازہ ترین صورت حال کیا ہے؟
پیر کو رات گئے ہی وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز شریف نے ایک سات رکنی اعلٰی اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس کی سربراہی چیف سیکریٹری پنجاب کر رہے ہیں۔ ہوم سیکریٹری اور سیکریٹری ایجوکیشن کو بھی کمیٹی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ کمیٹی زیادتی کے شواہد کے ساتھ ساتھ پولیس اور کالج انتظامیہ کے اب تک کے رویے اور رسپانس پر بھی اپنی رائے دے گی۔
وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر کے بیان کے برعکس لاہور پولیس نے بیان جاری کیا ہے کہ اس کالج کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیج اور ریکارڈ لے کر اس کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ اور اس سے جو بھی بات سامنے آئے گی اسے عوام کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
دوسری طرف مختلف کالجوں کے طلبہ چیئرنگ کراس پر احتجاج کر رہے ہیں۔ جبکہ کالج انتظامیہ اور پولیس ابھی تک اس نتیجے پہنچی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں ہے صرف سوشل میڈیا کے ذریعے افواہ پھیلائی گئی۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری کا کہنا ہے کہ ’اس مہم میں جن بچیوں کے نام لیے گئے ہم نے ان تک رسائی کی۔ ابھی تک تین مختلف بچیوں کے نام اور تصویریں سوشل میڈیا پر چلا کر کہا گیا کہ یہ ریپ وکٹم ہے۔ اور کبھی کہا گیا یہ اب مر گئی ہے۔ ہم ان بچیوں کے گھروں تک پہنچے ہیں وہ صحیح سلامت ہیں اور ان کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ لیکن آپ تصور نہیں کر سکتے کہ ان کی ذہنی حالت کیسی ہے۔ جب ان کی بچیوں کی تصاویر ریپ وکٹم کے طور پر چلائی جا رہی ہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اب ایک انتہائی طاقتور کمیٹی اس سارے معاملے کی الف سے ے تک چھان بین کر رہی ہے۔ جمعرات کو یہ رپورٹ آ جائے گی تو ایک ایک چیز واضح ہو جائے گی۔ اگر یہ ایک منظم مہم ثابت ہوئی تو بھی ان افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔