Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

26ویں آئینی ترمیم: کیا کھویا،کیا پایا؟ عامر خاکوانی کا کالم

اب حکومت عدلیہ سے شکوہ نہیں کر سکتی کہ اس کے فیصلے انہیں کام نہیں کر نے دے رہے (فوٹو: اے ایف پی)
آئین میں ترمیم تو ہوچکی۔ اصل سوال اب یہ ہے کہ اس آئینی ترمیم کے بعد کیا ہوگا؟ اس کے ساتھ یہ جائزہ ضرور لیا جانا چاہیے کہ اس پورے عمل میں ہم نے کیا کھویا،کیا پایا؟ اس ترمیم پر بہت زیادہ تنقید ہوتی رہی تو اس کے حامی مثبت پہلو گِنواتے رہے۔ ان سب پر بات کرتے ہیں۔
ابتدا منفی پہلوؤں سے کرتے ہیں، یعنی ہم نے سیاسی اور جمہوری طور پر کیا کھویا؟
سب سے پہلا نقصان تو اس کی منظوری کے طریقۂ کار میں ہوا جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں جگہوں پر فلور کراسنگ کا الزام سامنے آیا۔
سینیٹ میں بی این پی مینگل کے دو سینیٹرز جن میں ایک معزز سینیٹر خاتون شامل ہیں، ووٹ ڈالنے سے کئی دن پہلے مبینہ طور پر ’پراسرار طور پر غائب‘ رہے۔
پارٹی سربراہ اختر مینگل خاص طور سے پاکستان واپس آئے اور سینیٹ جا کر ان کا سامنا کرنے کی کوشش کی مگر پھر بھی ان دونوں نے ووٹ حکومتی ترمیم کے حق میں ڈال دیا۔
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے پانچ اراکین اسمبلی نے ایسا کیا۔
یہ سب نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بہتر ہوتا کہ اس کی نوبت نہ آتی۔ اگر موسٹ سینیئر جج کوچیف جسٹس بنانے کا فیصلہ ہوتا تو شاید تحریک انصاف بھی حمایت کر دیتی اور یوں متفقہ آئینی ترمیم ہو سکتی تھی۔
نیشنل پارٹی اور اے این پی کی طرح بی این پی مینگل کو بھی سیاسی طور پر انگیج کر لیا جاتا تو کچھ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ سابق چیف جسٹس عطا بندیال کا 63 اے والا فیصلہ تکنیکی طور پر چاہے جیسا بھی تھا مگر اس نے فلور کراسنگ کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا تھا۔
ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ پارلیمانی کمیٹی اگلا چیف جسٹس بنانے کا جو فیصلہ کرے گی اور اس کے بعد جوڈیشل کمیشن آئینی بینچ کے لیے جن فاضل جج صاحبان کا انتخاب کرے گا ان پر اعتراض پہلے دن سے ہو گا۔
وکلاء تنظیمیں اس حوالے سے تحریک چلانے کا اعلان کر چکی ہیں۔

مولانا فضل الرحمان تحریک انصاف اور حکمران اتحاد کے مابین پُل کا کردار ادا کر سکتے ہیں (فوٹو: پی ایم ہاؤس)

یہ افسوسناک ہوگا کہ جج صاحبان جن کا اس ترمیم میں کوئی عمل دخل نہیں، ان پر خوامخواہ متنازع ہونے کا تاثر جائے۔ ایسا نہ ہوتا تو بہتر رہتا۔
ایک اور پہلو کی طرف بعض سینیئر وکلاء اشارہ کر رہے ہیں کہ اب بہت سے کیسز میں وکلا صاحبان یہ پوائنٹ لیں گے کہ یہ سیاسی کیس ہے، اسے آئینی بینچ کو بھیجا جائے۔ یوں بہت سے کیسز آئینی بینچ کو غیر ضروری طور پر بھی چلے جائیں گے اور وہ پھر سے بوجھ تلے دب جائیں گے۔
اگر آئینی بینچ کیس واپس سپریم کورٹ کو بھیجے اور وہاں وکیل پھر سے یہ موقف لے کہ یہ کیس سیاسی ہوگیا ہے تو سپریم کورٹ کیا کرے گی؟
یہ ایسے سوالات ہیں جن پر زیادہ غور نہیں کیا گیا،اب ان سب کو عملی انداز میں سلیقے سے نمٹانا بھی ایک چیلنج ہی ہوگا۔
آئینی ترمیم کا اصل مقصد عدالتی اصلاحات لانا تھا۔ کاش بلاول بھٹو اور دیگر رہنما اس آئینی ترمیم میں ماتحت عدلیہ میں اصلاحات لانے اور جلد مقدمات نمٹانے کے حوالے سے بھی کچھ شامل کراتے۔
عام آدمی کا اصل تعلق ماتحت عدالت سے ہے جہاں 34 لاکھ مقدمات زیرسماعت ہیں۔ سپریم کورٹ کے 56 ہزار کیسز کا سوچنے والے، ساڑھے تین ملین ماتحت عدلیہ کیسز کو کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں؟
اگر مجموعی طور پرعدلیہ میں ریفارم لانے کا سوچا جاتا تو تب اسے عدالتی اصلاحات ترمیم کہا جا سکتا تھا۔ سردست تواس میں سیاسی ایجنڈا غالب ہے۔
اس ترمیم یا اس کے عمل میں چند ایک مثبت چیزیں بھی نظر آئیں جن سے سیکھا جا سکتا یا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
ترمیم جیسے بھی آئی، اس کی شقیں جو بھی ہوں، ایک تاثر بہرحال حکومت کے حق میں جا رہا ہے کہ اب کسی عدالتی فیصلے کے ذریعے یہ حکومتی سیٹ اپ ختم نہیں ہوسکتا۔ اگر کہیں کوئی موہوم خدشہ تھا تو بہرحال اس کا سدباب کر لیا گیا۔
یہ ایک لحاظ سے مثبت ہے کہ اس سے حکومتی سٹرکچر کے مستحکم ہونے کا تاثر جائے گا۔
اب حکمران اتحاد کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ وہ عدلیہ سے کوئی شکوہ نہیں کر سکتی کہ اس کے فیصلے انہیں کام نہیں کر نے دے رہے یا یہ کہ کابینہ کے کسی فیصلے کو عدلیہ نے روک دیا۔ کسی اہم تقرر کی راہ میں رکاوٹ بن گئی وغیرہ وغیرہ۔ آئینی بینچ بننے اور سوموٹو کا اختیار اسی بینچ کو مل جانے سے حکومت کو اس لحاظ سے بڑا ریلیف ملے گا۔
انہیں اپنی تمام تر توجہ پرفارمنس پر لگانی چاہیے کہ اب کوئی بہانہ یا عذر نہیں بنایا جا سکتا۔

ایک تاثر حکومت کے حق میں جا رہا ہے کہ اب کسی عدالتی فیصلے کے ذریعے یہ حکومتی سیٹ اپ ختم نہیں ہوسکتا (فوٹو: پی ایم ہاؤس)

ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ جو مسودہ 14، 15 ستمبر کو تھا، اس سے بہت کچھ نکالا جا چکا۔ ملٹری کورٹس سمیت، فنڈامینٹل رائٹس کو کسی نے نہیں چھیڑا۔
سابق چیف جسٹس کی ایکسٹینشن نہیں ہوئی جس سے ایک بُری روایت نہیں پڑی۔ آئینی عدالت کی صورت میں متوازی عدالت نہیں بنی جس میں ریٹائرڈ ججوں کو لگائے جانے کا امکان تھا۔
آئینی بینچ بہرحال اسی عدالت کے فاضل جج صاحبان پر ہی مشتمل ہوگا۔ اگلے مرحلے پر بھی ہائی کورٹس سے ہی جج صاحبان آئیں گے، سینیئر ترین نہ ہو، دوسرے تیسرے چوتھے نمبر والاہی سہی۔
ہائی کورٹس کے ججز کی روٹیشن کا معاملہ شامل نہیں ہوا جو بہت ہی تباہ کن تھا۔ ججز کے تقرر میں پارلیمنٹ کا عمل دخل بڑھنا ایک لحاظ سے برا نہیں۔ گیند اب پارلیمنٹ کی طرف ہے۔
پارلیمانی کمیٹی کو چاہیے کہ وہ مستقبل میں میرٹ پر بہترین لوگ نئے جج لگائیں تاکہ ماضی اور حال کا فرق واضح ہوسکے۔
اس ترمیم میں براہِ راست تحریک انصاف کے خلاف کچھ خاص نہیں ہے۔ اس کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمن کو جاتا ہے۔
عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے کیسز فوجداری نوعیت کے ہیں، وہ آئینی بینچ میں جائیں گے ہی نہیں۔ روٹین کی ہائی کورٹ، سپریم کورٹ ہی انہیں دیکھے گی۔
ایک بڑا مثبت پہلو اس پورے عمل کے دوران تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان فاصلے کم ہونا ہے۔ یہ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی شدید مخالف تھیں، دونوں کے قائدین ایک دوسرے کے لیے بہت سخت اور غیر شائستہ الفاظ بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔

آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران  سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں جگہوں پر فلورکراسنگ کا الزام سامنے آیا (فوٹو: پی ایم ہاؤس)

اس چند ماہ کی اپوزیشن نے دونوں جماعتوں کو قریب لا کھڑا کیا ہے۔ اچھی بات یہ بھی ہے کہ ترمیم کرتے ہوئے بھی جے یو آئی اور تحریک انصاف نے ایک دوسرے کو سپیس دی ہے اور تنقید کرنے سے گریز کیا۔
مولانا نے عمران خان کے لیے اچھے الفاظ استعمال کیے جبکہ خود مولانا کے بقول تحریک انصاف کے رہنماؤں نے انہیں اڈیالہ جیل سے عمران خان کے مثبت الفاظ پہنچائے۔
تحریک انصاف کے لیے یہ اچھا موقع ہے کہ وہ جے یو آئی کے ساتھ پولیٹیکل انگیجمنٹ کر کے حکمران اتحاد کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات میں شامل ہو۔
مولانا فضل الرحمان تحریک انصاف اور حکمران اتحاد کے مابین پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کو اس طرف جانا چاہیے۔ وہ بند گلی میں پہنچ چکے ہیں، انہیں مین سٹریم کی طرف واپسی کی راہ نکالنا ہے۔ مولانا اس میں مدد کر سکتے ہیں۔
عمران خان جیل سے باہر آجائیں تو ان کی اپنی پارٹی رہنماؤں کے ساتھ رسائی بہتر ہوجائے گی۔ وہ اپنے کارکنوں سے رابطہ کر سکیں گے اور اپوزیشن کا کردار بھی اچھے سے نبھا سکتے ہیں۔
تحریک انصاف نے پہلے محمود اچکزئی کے ذریعے یہ راستہ کھولنا چاہا مگر اچکزئی صاحب کی مین سٹریم سیاست میں ویسی رسائی نہیں۔ مولانا فضل الرحمان البتہ ایسا کر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں جے یو آئی کو کچھ رعایتیں اور سہولتیں دینی چاہیں۔ سینیٹ کے الیکشن وہاں ہونے ہیں، ادھر جے یو آئی کو اضافی سیٹ دی جا سکتی ہے۔
ڈی آئی خان، بنوں، لکی مروت میں مولانا کی فیملی اور کارکنوں کو ایزی رکھا جائے۔ یہ سب مشکل نہیں، اس کے بدلے ان کی اچھی سیاسی انگیجمنٹ ہو سکتی ہے۔
جے یو آئی اور تحریک انصاف اندرون سندھ بھی فطری اتحادی بن سکتے ہیں جہاں جے یو آئی کے پاس لاڑکانہ اور بعض دیگر جگہوں پر سیاسی پاکٹس موجود ہیں۔ تحریک انصاف کو اس آپشن پر غور کرنا چاہیے۔

تحریک انصاف کو سڑکوں کے بجائے اگلی جنگ پارلیمنٹ اور مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیا پر سلیقے سے لڑنی چاہیے (فوٹو: پی ایم ہاؤس)

اس ترمیم کے بعد ممکن ہے مولانا اور حکمران اتحاد قریب آجائیں۔ تحریک انصاف اگر پیش قدمی کرے تو وہ مولانا کو باقاعدہ حکومت میں شامل ہونے سے روک کر اپنے قریب کر سکتی ہے۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد تحریک انصاف کے لیے ایک موقع پیدا ہوا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر ازسرِنو غور کرے اور مستقبل کے لیے کوئی قابل عمل سیاسی لائحہ عمل بنائے۔ جو احتجاج کی پالیسی انہوں نے اپنائی، اب اس کا مستقبل میں زیادہ فائدہ نظر نہیں آ رہا۔
سڑکوں کے بجائے انہیں اگلی جنگ پارلیمنٹ اور مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیا پر سلیقے سے لڑنی چاہیے۔ کشیدگی زیادہ نہ بڑھائیں۔ تھوڑا صبر، تھوڑا انتظار مگر مضبوطی سے اپوزیشن ضرور کرتے رہیں۔ اپنے مناسب وقت کا انتظار کریں۔
تحریک انصاف تھوڑا سا بیک فٹ پر جائے، لوپروفائل ہو توپھر نئے مواقع پیدا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سبق ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی بھی اب یہ سیکھ گئے ہوں گے۔

شیئر: