Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قسمت کے اگر مگر، عامر خاکوانی کا کالم

رشی کپور اگر ایشوریا رائے کو پوائنٹ نہ دیتا اور آج دنیا ایشوریہ رائے کے نام ہی سے بے خبر ہوتی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ہماری قسمت یا مقدر دلچسپ اور پراسرار اگر، مگر، چونکہ، چناچہ سے گندھا ہوا ہے۔ بعض بڑی کامیابیوں کے پیچھے یہی اگر، مگر ہوتے ہیں۔ اگرایسا نہ ہوا ہوتا تو یہ ہوجاتا۔ اگر ویسا ہوا ہوتا تو آج یہ نہ ہوتا ، وغیرہ وغیرہ۔
 وقار یونس دنیائے کرکٹ کا بڑا اور غیر معمولی بولر ہے۔ حیران کن کامیابیاں سمیٹنے والا۔ بورے والا جیسے نسبتاً چھوٹی اور پسماندہ تحصیل کا یہ تیز رفتار بولر شائد اتنا جلد قومی کرکٹ ٹیم میں نہ آسکتا، اگر ایک خوش نصیب دن وہ پاکستان کے تب کے کرکٹ کپتان عمران خان کی نظروں میں نہ آجاتا۔
 وقار یونس لاہور میں انڈیا کی ڈومیسٹک چیمپیئن ٹیم سے میچ کھیل رہا تھا۔ عمران خان اس روز فلو کے باعث گھر پر تھے، انہوں نے ٹی وی آن کیا تو ایک نوجوان فاسٹ بولر باﺅلنگ کرا رہا تھا۔ اس کی سپیڈ اور گیند پر کنٹرول نے خان کو متاثر کیا۔ میچ ابھی چل رہا تھا کہ عمران خان نے شال لپیٹی اور گاڑی نکال کر قذافی سٹیڈیم پہنچ گئے۔ وقار یونس نامی اس 19 سالہ نوجوان سے کہا کہ تم نیشنل ٹیم کی طرف سے کھیلو گے، تیار ہوجاﺅ۔
سوال یہ ہے کہ اگر اس دن عمران خان ناسازی طبع کے باعث گھر بیٹھ کر ٹی وی نہ دیکھتے تب کیا ہوتا؟
 وقار یونس کوالٹی بولر تھا، ممکن ہے وہ سال دو سال بعد بھی ٹیم میں آ جاتا یا کون جانتا ہے کہ وہ ہمارے ڈومیسٹک سسٹم کی بے رحمی کی نذرہوجاتا۔ نجانے ایسے کتنے فاسٹ بولر ہوں گے جو کسی کی نظر میں نہ آئے اور آج انہیں کوئی نہیں جانتا۔
 ایشوریا رائے انڈیا کی معروف اداکارہ ہیں، وہ مس ورلڈ بھی رہیں۔ مس ورلڈ کے مقابلے میں شرکت کے لیے ایشوریا کا مس انڈیا بننا لازمی تھا۔ مس انڈیا کا مقابلہ خاصا سخت ہوتا ہے، انڈیا کے مختلف شہروں سے بہت سی سمارٹ، خوش شکل لڑکیاں بھرپور تیاری کر کے شامل ہوتی ہیں۔ ایشوریہ رائے کی قسمت بدلنے میں ایک خوش بخت لمحے کا اہم کردار ہے۔ مقابلہ بڑا سخت تھا، پوائنٹس تقریباً برابر تھے، آخر میں مقابلے کے جج نے سوال پوچھنے تھے، انہی پر سب دارومدار تھا۔ انڈیا کے ممتاز اداکار اور کپور خاندان کے چشم وچراغ رشی کپور جج تھے۔
 رشی کپور نے ایشوریا سے سوال پوچھا کہ اگر آپ کو کسی ایک واقعے کو تبدیل کرنے کا اختیار ملے تو کس واقعے کو ریورس یا ڈیلیٹ کر دیں گی؟ یہ بڑا اہم سوال تھا۔ ایشوریہ رائے کی نجی زندگی میں بھی کئی ایسے واقعات، صدمے گزرے ہوں گے جنہیں شاید وہ ریورس کرانا چاہتیں، مگر ایشوریہ نے ایک لمحہ سوچ کر وہ جواب دیا جس نے ان کی اگلی زندگی بدل دی۔

ایشوریہ رائے کو مس ورلڈ کے طور پر اسے بالی وڈ کے کئی اہم فلمی پراجیکٹ ملے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ایشوریہ رائے نے کہا، اگر مجھے ماضی کے ایک واقعہ بدلنے کا اختیار ملے تو میں اندرا گاندھی کے قتل کا واقعہ نہیں ہونے دوں گی۔
 رشی کپور جواب سن کر حیران رہ گئے، انھوں نے ایشوریہ رائے کو وہ پوائنٹ دے دیا، جس نے ایشوریا کو مس انڈیا بنایا اور بعد میں وہ مس ورلڈ بنی۔
مس ورلڈ کے طور پر اسے بالی وڈ کے کئی اہم فلمی پراجیکٹ ملے اور پھر اسی سفر میں اس کا رشتہ بچن فیملی سے جڑ گیا۔ ممکن ہے وہ کوئی بونگا جواب دے دیتی، رشی کپور اسے پوائنٹ نہ دیتا اور آج دنیا ایشوریہ رائے کے نام ہی سے بے خبر ہوتی۔ جیسے ہم اس مس انڈیا مقابلے میں نمبر دو آنے والی لڑکی کو نہیں جانتے۔
 اسی سے مجھے عالمی ادب کاایک افسانہ یاد آیا، شاید سب رنگ ڈائجسٹ میں چھپا تھا۔ ایک نوجوان خوبصورت لڑکی اپنے منگیتر کے ساتھ ایک چھوٹے شہر سیر و سیاحت کی غرض سے پہنچی۔ جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، وہاں پر شہر کا مقابلہ حسن ہو رہا تھا۔ انتظامیہ نے اعلان کر رکھا تھا کہ شہر میں آئی سیاح لڑکیاں بھی شریک ہوسکتی ہیں۔
ہوٹل کے سمارٹ مینیجر نے اس جوڑے کو قائل کر لیا کہ لڑکی کو مقابلے میں حصہ لینا چاہیے۔ وہ بیوٹی کانٹیسٹ میں شامل ہوئی اور شہر کی حسین ترین لڑکی کا اعزاز جیت لیا۔ فوری طور پر مقامی پریس ٹوٹ پڑا۔ وہ اچانک ہی لائم لائٹ میں آ گئی۔

عمران خان نے وقار یونس نامی اس 19 سالہ نوجوان سے کہا کہ تم نیشنل ٹیم کی طرف سے کھیلو گے، تیار ہو جاﺅ۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 اسی شام ریاست کے دارالحکومت کی ایک بڑی کمپنی نے لڑکی کو ماڈلنگ کی نہایت پرکشش آفر بھی کر دی۔ لڑکی نے وہ قبول کر لی اور منگیترغریب منہ دیکھتا رہ گیا۔ اگلے دن وہ دل گرفتہ بیٹھا غم غلط کر رہا تھا کہ اسے وہی مینیجر ایک سمارٹ سی خوش شکل لڑکی کے ساتھ نظر آیا۔ مینیجر اس کی میز پر آیا، خیر سگالی کلمات کے بعد اس نے کہا کہ ’یہ میری منگیتر ہے اور اگلے ہفتے ہم شادی کر رہے ہیں۔ افسردہ نوجوان نے پوچھا کہ تمہاری منگیتر کا چہرہ جانا پہچانا لگ رہا ہے ؟ ہوٹل مینیجر نے چہک کر کہا، سر اس نے بھی بیوٹی کانٹیسٹ میں حصہ لیا تھا اور یہ دوسرے نمبر پر آئی۔ اگر آپ کی منگیتر نہ شامل ہوتی تو میری والی نے مقابلہ حسن جیت جانا تھا۔ اسی خدشہ کے پیش نظر تو میں نے آپ کی منگیتر کو حصہ لینے کے لیے قائل کیا تھا۔ پھر وہ اس جانب جھک کر چمکتی آنکھوں سے سرگوشی میں بولا، مجھے معلوم تھا کہ میری منگیتر نے اگر مقابلہ حسن جیت لیا تو پھر وہ اس چھوٹے شہر میں کہاں رہ پائے گی اور مجھے چھوڑ جائے گی۔‘
 یہ قسمت کے اگر مگرہیں۔ درست وقت پر درست جگہ کھڑا ہونے یا غلط وقت پر غلط جگہ کھڑا ہونے کا شاخسانہ بعض اوقات آنے والی نسلوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔
  پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے پانچ چھ امیدوار تھے، ان میں مخدوم زادہ حسن محمود جیسے تجربہ کار سیاستدان سے لے کریوسف رضاگیلانی کے چچامخدوم حامد رضا گیلانی اور ملک اللہ یار جیسے کہنہ مشق پنجاب کی دیہی سیاست کو سمجھنے والے شناور شامل تھے۔
میاں نواز شریف پہلی بار ایم پی اے بنے تھے، لاہور کی شہری فیملی سے تعلق تھا اور صوبائی وزارت کا تھوڑا بہت تجربہ۔ کوئی بڑا سیاسی خاندان یا گروپ بھی پشت پر نہیں تھا۔ شاید یہی ان کی خوبی بن گئی کہ گورنر پنجاب جنرل جیلانی نے سوچا ہوگا کہ نواز شریف کی جڑیں گہری نہیں اور انہیں کنٹرول کرنا آسان ہوگا۔

گورنر پنجاب جنرل جیلانی نے سوچا ہوگا کہ نواز شریف کی جڑیں گہری نہیں اور انہیں کنٹرول کرنا آسان ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 کہتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق نے نواز شریف کی منظوری ایک اور وجہ سے بھی دی ۔جنرل ضیا کو بتایا گیا کہ شریف فیملی کی انڈسٹری اور اثاثے بھٹو نے نیشنلائز کر لیے تھے۔
ہوشیار فوجی آمر نے سوچا کہ بھٹو خاندان نے انہیں گہرا زخم اور چرکا لگایا ہے، اس لیے ان کے دلوں میں ہمیشہ بھٹو کی نفرت اور مخالفت رہے گی۔
ضیا یہی مخالفانہ جذبہ اپنے تمام ساتھیوں کے دلوں میں چاہتے تھے۔ میاں نواز شریف کوموقع مل گیا۔ وہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے اور پھر 88 میں جونیجو حکومت کے خاتمے کے بعد بھی نگران وزیراعلیٰ بنائے گئے۔ الیکشن کے بعد وہ تمام اینٹی بھٹو قوتوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔
دو سال کے بعد وزیراعظم بنے.... انگریزی محاورے کے مطابق باقی سب تاریخ ہے۔

شیئر: