Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ جنگ بندی معاہدے پر بات چیت کے لیے انٹونی بلنکن قطر پہنچ گئے

7 اکتوبر کے حملے کے بعد سے انٹونی بلنکن کا خطے کا یہ گیارہواں سرکاری دورہ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن غزہ جنگ بندی پر بات چیت کے لیے سعودی عرب سے قطر پہنچ گئے ہیں۔
خبر رساں ایجسنی اے ایف پی کے مطابق یروشلم میں اسرائیلی وزیراعظم نیتین یاہو اور سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے بعد انٹونی بلنکن آج جمعرات کو قطر پہنچیں ہیں جہاں وہ خلیجی ریاست کے امیر تمیم بن حمد الثانی اور وزیراعظم محمد بن عبدالرحمان بن جاسم الثانی سے ملاقاتیں کریں گے تاکہ جنگ بندی معاہدے پر حماس کے مؤقف کو جانا جا سکے۔
گزشتہ سال 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے انٹونی بلنکن کا خطے کا یہ گیارہواں سرکاری دورہ ہے۔
انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی رہنماؤں کو بتایا کہ ’حماس کے حوالے سے یہ تعین کرنا اہم ہے کیا وہ آگے بڑھنے کو تیار ہے اور مصری اور قطری بھی یہی کر رہے ہیں۔‘
انٹونی بلنکن نے اسرائیل سے روانگی پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’میرے خیال میں سنوار کے جانے سے کیونکہ وہ یرغمالیوں کے معاہدے میں اولین رکاوٹ تھے، اب یرغمالیوں کو واپس لانے اور اس مقصد کو پورا کرنے کا حقیقی موقع ہے۔‘
دوسری جانب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اسرائیلی ہم منصب کو آگاہ کیا ہے کہ لبنانی فوج پر حملوں کے حوالے سے واشنگٹن میں تشویش پائی جاتی ہے اور اسرائیل پر زور دیا کہ لبنانی فوج اور وہاں موجود اقوام متحدہ کے امن مشن کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ دفاع نے کہا ہے کہ لائیڈ آسٹن نے ’لبنانی مسلح افواج کے خلاف حملوں پر گہری تشویس کا اظہار کیا ہے‘ اور اسرائیل کو ’لبنانی مسلح افواج اور اقوام متحدہ کی لبنان میں عبوری فوج کی سکیورٹی اور تحفط کو یقینی بنانے کا کہا ہے۔‘
اتوار کو لبنانی فوج نے کہا تھا کہ جنوبی لبنان میں اس کی گاڑی پر اسرائیل نے حملہ کیا تھا جس میں تین لبنانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
اسرائیل نے واقعے پر معافی مانگی اور واضح کیا کہ وہ لبنانی فوج کے خلاف آپریشن نہیں کر رہا۔
اقوام متحدہ کے لبنان میں امن مشن کا بھی کہنا ہے کہ اس کے دستے کئی مرتبہ اسرائیلی حملوں کی زد میں آئے ہیں۔
لائیڈ آسٹن نے اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ کو بتایا کہ واشنگٹن ایریز راہداری کے ذریعے شمالی غزہ میں امداد کی ترسیل کا خیرمقدم کرتا ہے اور اسرائیل پر زور دیا کہ وہاں کی سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے مزید اقدامات کرے۔
گزشتہ ہفتے واشنگٹن کی جانب سے اسرائیلی حکام کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ غزہ میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور یا پھر امریکی فوجی امداد میں ممکنہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسرائیل کی غزہ میں جنگ سے وہاں کی مکمل 23 لاکھ کی آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ بھوک کا بحران بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔
علاوہ ازیں اقوام متحدہ  کے شام کے لیے نمائندہ خصوصی جیئر پیڈرسن نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ ’مقبوضہ فلسطینی علاقے بشمول اور لبنان میں تنازعے کی آگ بھڑک رہی ہے جس کی گرمائش شام میں بھی محسوس کی جا رہی ہے۔‘

لبنانی اور اقوام متحدہ کی عبوری فوج اسرائیلی حملوں کی زد میں آ چکی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

نمائندہ خصوصی نے خبردار کیا کہ علاقائی تنازعے کا شام تک پھیلاؤ انتہائی خطرناک ہے اور یہ شدت بھی اختیار کر سکتا ہے۔
اسرائیل کئی سالوں سے شام میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے تاہم لبنان میں حالیہ تنازع کے بعد سے فضائی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اسرائیل حزب اللہ پر الزام عائد کرتا آیا ہے کہ لبنان کو شام کے ذریعے ہتھیار پہنچائے جاتے رہے ہیں۔
نمائندہ خصوصی جیئر پیڈرسن نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ 13 سالوں میں گزشتہ ماہ سب سے زیادہ اور وسیع پیمانے پر اسرائیلی فضائی حملے ہوئے اور دمشق کے مرکز میں بھی رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ شام کے شمال مغرب میں علاقائی کشیدگی اندرونی تنازع کو متحرک کر رہی ہے جبکہ کئی ماہ میں پہلی مرتبہ روس کی جانب سے فضائی حملے شروع ہو گئے ہیں اور حکومت حامی قوتوں نے ڈرون حملوں اور شیلنگ کا سلسلہ بڑھا دیا ہے۔
خیال رہے کہ روس اور ترکیہ کی طرف سے طے شدہ جنگ بندی کا اعلان 2020 میں ملک کے شمال میں کیا گیا تھا، اگرچہ اس کی باقاعدہ خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ 

شیئر: