افغانستان کے وزیر خارجہ کی کابل میں موٹر سائیکل چلانے کی ویڈیو وائرل، ’پبلسٹی سٹنٹ ہے‘
جمعرات 31 اکتوبر 2024 16:00
لوگوں نے عام طور پر تسلیم کیا کہ سکیورٹی میں بہتری آئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ کی کابل میں موٹرسائیکل پر سوار ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو ظاہر کرتی ہے کہ طالبان کے دور میں سکیورٹی بہتر ہے۔
عرب نیوز کے مطابق وزارت خارجہ کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ اس ہفتے شوٹ کی گئی ویڈیو میں امیر خان متقی کو افغان دارالحکومت کے وزیر اکبر خان علاقے میں غروب آفتاب کے بعد سواری کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
جس گلی میں وہ موٹر سائیکل چلا رہے تھے وہ ارگ صدارتی محل سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے، جہاں ملک کی عبوری حکومت کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔
مغربی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے اور اگست 2021 میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد بین الاقوامی برادری کے زیادہ تر نمائندوں کے ملک چھوڑنے سے پہلے آس پاس کا علاقہ کابل کے سفارتی زون کے طور پر جانا جاتا تھا۔
سڑک پر ایک وزیر کا موٹر سائیکل چلانا کچھ رہائشیوں کے لیے اس بات کا عکاس تھا کہ 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد غیر ملکی فوج کی موجودگی کے عرصے کے مقابلے میں ملک اب زیادہ محفوظ ہے۔
کابل کے رہائشی حمزہ کوثر نے جمعرات کو عرب نیوز کو بتایا کہ ’سکیورٹی اب بہت اچھی ہے۔ سکیورٹی فورسز اس بات کو یقینی بنانے کے لیے دن رات کوشش کر رہی ہیں کہ لوگ امن سے رہیں۔‘
’پچھلی حکومتوں کے لیڈروں کے برعکس ہمارے موجودہ لیڈر عوام سے چھپے نہیں ہیں۔ وہ سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ وزیر خارجہ کا تنہا باہر آنے کا اقدام اس کا ثبوت ہے۔‘
جب کہ لوگوں نے عام طور پر تسلیم کیا کہ سکیورٹی میں بہتری آئی ہے، لیکن بہت سے دیگر زیر التوا مسائل جوں کہ توں موجود ہیں۔
22 سالہ رحمن اللہ نے کہا کہ ’دو ہفتے ہو گئے ہیں اور مجھے اپنا قومی شناختی کارڈ نہیں مل سکا۔ میں ایک دفتر سے دوسرے دفتر جاتا ہوں اور میرے کام میں تاخیر ہو رہی ہے۔‘
’یہ اچھی بات ہے کہ وزرا اور دیگر لوگ بغیر کسی پریشانی کے شہر میں گھومنے کے قابل ہیں۔ لیکن وزیر کو چھوڑیں کچھ دفاتر میں ڈائریکٹر سطح کے عہدیدار نظر نہیں آتے۔‘
ایک دکاندار جاوید رحیمی کے لیے موٹرسائیکل کی ویڈیو ایک پبلسٹی سٹنٹ تھی اور طالبان کی حکمرانی کے ساتھ بہت سے نئے مسائل سامنے آئے ہیں جن میں بے روزگاری، غربت اور خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندی شامل ہیں۔
تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ چوری، ڈکیتی، اور دھماکوں کے واقعات جو پہلے عام تھے اب ان میں کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ اب کوئی جنگ اور تصادم نہیں ہے۔ ’ہمارے ہم وطن ہر روز دھماکوں اور حملوں میں نہیں مر رہے ہیں۔‘