Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا صدارتی امیدوار زیادہ ووٹوں کے باوجود الیکشن ہار سکتا ہے؟ نظریں الیکٹورل کالج پر

صدارتی امیدوار کو جیتنے کے لیے 270 الیکٹورل ووٹس درکار ہوتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ جب سال 2016 میں اپنی سیاسی حریف ہیلری کلنٹن کو شکست دے کر صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے اس کو ایک ’خوبصورت‘ فتح قرار دیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 2016 کے انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کو اپنے حریف کے مقابلے میں ملک بھر سے 30 لاکھ سے زائد ووٹ پڑے تھے لیکن پھر بھی فاتح ڈونلڈ ٹرمپ کو قرار دیا گیا تھا۔
یہ غیرامریکیوں کے لیے کافی حیرت انگیز تھا کہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے شخص کو صدر منتخب کیا جائے۔
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے وہی کیا تھا جو امریکی نظام کے تحت ضروری تھا۔ وائٹ ہاؤس کو فتح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ ریاستوں میں ووٹ جیتے جائیں تاکہ 270 الیکٹرز کے ووٹس حاصل کرنے کی شرط کو پورا کیا جا سکے۔
قومی سطح پر کُل 538 الیکٹورل ووٹس یا الیکٹرز ہوتے ہیں جبکہ امیدوار کو جیتنے کے لیے 270 ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
الیکشن والے دن جب امریکی ووٹر اپنے صدر کا انتخاب کرنے کے لیے پولنگ سٹیشن ووٹ ڈالنے جاتا ہے تو اس کے سامنے بیلٹ پیپر پر صرف صدر اور نائب صدر کے نام ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ ایک گروپ یا الیکٹرز کو ووٹ ڈال رہا ہوتا ہے۔
ملک بھر میں عام ووٹنگ کا مرحملہ مکمل ہونے کے بعد الیکٹورل کالج کے 538 ارکان اپنی متعلقہ ریاستوں کے دارالحکومت میں اکھٹے ہوتے ہیں اور جیتنے والے کا تعین کرتے ہیں۔
کیونکہ اکثر ریاستوں کی ریپبلکن یا ڈیموکریٹ جماعت کے ساتھ وابستگی واضح ہوتی ہے لہٰذا امیدواروں کی کوشش ہوتی ہے کہ ’سوئنگ‘ ریاستوں، یعنی وہ ریاستیں جہاں ووٹرز کسی بھی جماعت کے حق میں ووٹ ڈال سکتے ہیں، ان پر توجہ مرکوز کی جائے۔ 

ہر امیدوار کی زیادہ سے زیادہ ریاستوں سے جیتنے کی کوشش ہوتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

امریکہ کے آئین کے تحت دیا گیا الیکشن کا نظام دراصل ملک کے بانیوں کے درمیان سمجھوتے کا نتیجہ ہے۔ بانیوں کے سامنے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ صدر کے انتخاب کا اختیار کانگریس کے پاس ہو یا عوامی رائے سے ہونا چاہیے۔
گزشتہ کئی سالوں میں الیکٹورل کالج کو ختم کرنے کی غرض سے متعدد ترامیم کانگریس میں پیش کی جا چکی ہیں لیکن کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ 
الیکٹرز کون ہیں؟
الیکٹرز یعنی صدر کو منتخب کرنے والے سیاستدان مقامی سطح پر پارٹی عہدیدار ہوتے ہیں یا پھر پارٹی سربراہان ہوتے ہیں لیکن ان کے نام بیلٹ پیپر پر درج نہیں ہوتے۔
الیکٹرز ویسے تو اپنی سیاسی جماعت کے ہی وفادار ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے اس عہد کے پابند ہوتے ہیں کہ ان کی ریاست میں عوامی ووٹوں سے جیتنے والے امیدوار کی ہی حمایت کی جائے۔ 
ہر ریاست کے اتنے ہی الیکٹرز ہوتے ہیں جتنے کانگریس میں اس کے نمائندوں اور سینیٹرز کی تعداد ہے۔ کانگریس کے ایوان نمائندگان یعنی ہاؤس میں کسی بھی ریاست سے ارکان کی تعداد وہاں کی آبادی پر منحصر ہوتی ہے۔ جبکہ سینیٹ میں ہر ریاست کی نمائندگی 2 ارکان کرتے ہیں۔
الیکٹورل کالج میں ہر الیکٹر ایک ووٹ کی نمائندگی کرتا ہے۔
الیکٹورل کالج میں سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کیلی فورنیا سے 54 الیکٹر نمائندگی کرتے ہیں جبکہ ٹیکساس سے 40 ہیں۔ کم آبادی والی ریاستیں الاسکا، ڈیلاویئر، ورمونٹ اور وائیومنگ سے صرف تین تین ارکان کو الیکٹورل کالج کے لیے نامزد کیا جاتا ہے۔
اگرچہ دارالحکومت واشنگٹن کی کانگریس میں نمائندگی نہیں ہے لیکن پھر بھی تین الیکٹرز واشنگٹن سے منتخب کیے جاتے ہیں۔
دو ریاستوں نیبراسکا اور میئن کے علاوہ ہر ریاست میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو اس ریاست کے تمام الیکٹرز الاٹ کر دیے جاتے ہیں۔ یعنی کسی بھی ریاست میں بڑے مارجن سے جیتنا الیکٹورل کالج کے ایک ووٹ کے مترادف ہے۔
نومبر 2016 کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے 304 الیکٹورل ووٹس حاصل کیے تھے جبکہ انہیں صرف 270 درکار تھے۔ جبکہ سال 2020 کے انتخابات میں صدر بائیڈن 306 الیکٹورل ووٹس سے جیتے تھے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو 232 الیکٹورل ووٹس پڑے تھے۔

کالیکٹورل کالج کی حتمی رائے جیتنے والے امیدوار کا فیصلہ کرتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

الیکٹرز کیسے ووٹ ڈالتے ہیں؟
ووٹنگ کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد 17 دسمبر کو مختلف ریاستوں سے وابستہ الیکٹرز اپنے ریاستی دارالحکومت میں اکھٹے ہوں گے اور صدر اور نائب صدر کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔ امریکی قانون کے مطابق الیکٹرز دسمبر کے دوسرے بدھ کے بعد پہلے منگل کو ملتے ہیں جس کے مطابق رواں سال 17 دسمبر کی تاریخ کو الیکٹرز اکھٹے ہوں گے۔
ویسے تو الیکٹرز کا اکھٹا ہونا محض ایک رسمی تقریب سمجھی جاتی ہے جب وہ عوامی رائے کے ذریعے متعلقہ ریاستوں سے جیتنے والے امیدوار کے نام کے آگے اپنی مہر لگاتے ہیں۔
لیکن 2016 میں غیرمعمولی طور پر 538 الیکٹرز میں سے سات نے متعلقہ ریاستوں میں پاپولر ووٹ جیتنے والے امیدوار کو اپنا ووٹ دینے کے بجائے کسی اور کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔
اِن میں سے تین الیکٹرز نے سابق وزیر خارجہ کالن پاول کو ووٹ ڈالا تھا جبکہ ان الیکٹرز کی نمائندہ ریاستوں میں پاپولر ووٹ ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کے حق میں پڑا تھا۔ لہٰذا جیت ڈونلڈ ٹرمپ کی ہوئی تھی۔
ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سمیت 33 ریاستوں میں لاگو قوانین کے تحت عوامی رائے کے برعکس ووٹ دینے والے الیکٹرز کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی جاتی ہے تاکہ ’غیروفادار‘ الیکٹرز کو کسی اور کو ووٹ دینے سے روکا جا سکے۔
6 جنوری 2025 کو کانگریس کا اجلاس منعقد ہوگا جس میں سرکاری طور پر ووٹوں کی گنتی کی جائے گی اور 20 جنوری کو نو منتخب صدر عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

شیئر: