ایک واٹس ایپ گروپ میں صحافی دوست نے میسج بھیجا ’معاشی وخصوصی مہربان کہتے ہیں کہ اگلے چھ ماہ سے ایک سال تک شرح سود سنگل ڈیجٹ (10 فیصد سے کم) اور سٹاک ایکسیچنج ایک لاکھ پوائنٹ سے اوپر، زرمبادلہ کے ذخائر 50 ارب ڈالر، مہنگائی کی شرح پانچ فیصد، شرح نمو چھ، سات فیصد، مجموعی ایکسپورٹ 40 ارب ڈالر تک آ جائے گی۔ تب کچھ خاص ہو گا۔‘ (اس خاص کی تفصیل رہنے دیں کہ اس میں کچھ سازشی تھیوریز ہیں۔)
اس میسج کے ساتھ سوال تھا کہ کیا واقعی ایسا کچھ ہو رہا ہے؟
آپ چاہیں تو اس میسج کو نظرانداز کر دیں، ویسے بھی جس میسج کا کوئی والی وارث نہ ہو، اس پر کیا تبصرہ کرنا۔ یہ بات مگر درست ہے کہ ہوا میں کچھ نامعلوم سی خوشبو گھلی ملی ہے ، پہچانی نہیں جاتی۔
مزید پڑھیں
-
سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کے اثرات کیا ہوں گے؟Node ID: 881260
-
سرمایہ کاری کی بات چیت، پاکستانی وفد سعودی عرب گیا ہے: وزیراعظمNode ID: 881280
ویسے تو پاکستانی قومی منظرنامے کے حوالے سے پیر کو اچانک بڑا سرپرائز ملا، جب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال سے پانچ سال کر دی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے قوم کو بتایا کہ موجودہ آرمی چیف 2027 تک چیف رہیں گے۔ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد اچانک 17 سے 34 یعنی دگنی کر دی۔
اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ 17 سے 24 جج کر دیے جائیں گے مگر 34 یعنی 17 نئے سپریم کورٹ کے ججوں کا اضافہ تو ایک حیران کن خبر تھی۔
اس کا یہ مطلب ہوا کہ ایک طرح سے ایک بالکل نئی سپریم کورٹ یعنی سترہ مزید جج صاحبان لگائے جائیں گے۔ یہ جج جوڈیشل کمیشن لگائے گا، جس میں حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے ۔اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کیا ہو گا۔
دوسری طرف کورٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ایک اور ترمیم کر دی گئی ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ کے بینچ بنانے والی کمیٹی میں چیف جسٹس اور سینیئر ترین جج کے علاوہ تیسرے رکن آئینی بینچ کے سربراہ ہوں گے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو جسٹس منیب اختر شاید اس کمیٹی میں پھر سے نہ ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے کیا گیا ہے جس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں پڑی۔
![](/sites/default/files/pictures/November/43881/2024/na_pakistan.jpg)
جس قطعیت، آسانی اور اعتماد سے یہ سب اقدامات کیے گئے، اس کے بعد اگر کسی روز کوئی اور قانون سازی ہو تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اب تو 27ویں آئینی ترمیم کا منظور ہونا بھی بائیں ہاتھ کا کھیل لگ رہا ہے بلکہ حکمران اتحاد کے ایک اہم رہنما کے بقول ہم پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے 127ویں ترمیم بھی لا سکتے ہیں۔ ٹھیک کہا انہوں نے ، میرا نہیں خیال کہ پیر کو ہونے والی قانون سازی کے بعد کوئی اس رائے پر شک کر سکتا ہے۔
پیر کے روز ایک اور دلچسپ اور معنی خیز اقدام شرح سود میں کمی کا اٹھایا گیا۔ اچانک اڑھائی فیصد کمی کر کے شرح سود 15 فیصد تک کر دی گئی۔
یاد رہے کہ ستمبر میں بھی یہ شرح دو فیصد کم کی گئی یعنی پانچ چھ ہفتوں میں شرح سود ساڑھے چار فیصد تک کم ہوئی ہے۔ کاروباری طبقات اس پر یقیناً مسرور ہوئے ہوں گے کیونکہ شرح سود کم ہونے سے سرمایہ دار نئے قرضے لیں گے جس سے کاروباری مواقع پیدا ہوں گے۔
سٹیٹ بینک نے اس نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح توقع سے زیادہ تیزی سے نیچے آئی ہے اور اکتوبر میں مہنگائی کی شرح سوا سات کے لگ بھگ رہی۔سٹیٹ بینک نے یہ بھی مژدہ سنایا کہ سٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر اگلے سال جون تک 13 ارب ڈالر ہوں گے۔
معاشی اعتبار سے ایک اور بڑی اہم اور دلچسپ خبر یہ بھی ہے کہ اکتوبر یعنی پچھلے مہینے میں پاکستان کی ایکسپورٹ تقریباً تین ارب ڈالر رہی جو کہ پچھے سال اکتوبر سے 11 فیصد زیادہ ہے جبکہ ستمبر 2024 سے پانچ فیصد زیادہ۔ امپورٹ آٹھ فیصد کمی کے ساتھ ساڑھے چار ارب ڈالر کے قریب رہی۔ ایکسپورٹ میں اضافہ اور امپورٹ میں کمی ہونا خوش آئند ہوتا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کا تجارتی خسارہ پچھلے سال اکتوبر 2023 کی نسبت 31 فیصد کم ہو کر اس سال اکتوبر میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے قریب رہا۔
یہ پاکستان کے ادارہ شماریات کے اعداد و شمار ہیں۔
سٹاک ایکسچینج کے بارے میں آپ جانتے ہی ہوں گے کہ وہ ہر روز نیا ریکارڈ بنا رہی ہے اور 92 ہزار پوائنٹس تک جا چکی ہے۔ اس اعتبار سے تو ایک لاکھ پوائنٹس تک جانا کچھ عجب نہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/November/43881/2024/sifc_2.jpg)