Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہوا میں ایک ’نامعلوم‘ سی خوشبو گُھلی ملی لگتی ہے، عامر خاکوانی کا کالم

سٹاک ایکسچینج ہر روز نیا ریکارڈ بنا رہی ہے اور 92 ہزار پوائنٹس تک جا چکی ہے (فائل فوٹو: پی ایس ایکس)
ایک واٹس ایپ گروپ میں صحافی دوست نے میسج بھیجا ’معاشی وخصوصی مہربان کہتے ہیں کہ اگلے چھ ماہ سے ایک سال تک شرح سود سنگل ڈیجٹ (10 فیصد سے کم) اور سٹاک ایکسیچنج ایک لاکھ پوائنٹ سے اوپر، زرمبادلہ کے ذخائر 50 ارب ڈالر، مہنگائی کی شرح پانچ فیصد، شرح نمو چھ، سات فیصد، مجموعی ایکسپورٹ 40 ارب ڈالر تک آ جائے گی۔ تب کچھ خاص ہو گا۔‘ (اس خاص کی تفصیل رہنے دیں کہ اس میں کچھ سازشی تھیوریز ہیں۔)
اس میسج کے ساتھ سوال تھا کہ کیا واقعی ایسا کچھ ہو رہا ہے؟
آپ چاہیں تو اس میسج کو نظرانداز کر دیں، ویسے بھی جس میسج کا کوئی والی وارث نہ ہو، اس پر کیا تبصرہ کرنا۔ یہ بات مگر درست ہے کہ ہوا میں کچھ نامعلوم سی خوشبو گھلی ملی ہے ، پہچانی نہیں جاتی۔
ویسے تو پاکستانی قومی منظرنامے کے حوالے سے پیر کو اچانک بڑا سرپرائز ملا، جب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال سے پانچ سال کر دی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے قوم کو بتایا کہ موجودہ آرمی چیف 2027  تک چیف رہیں گے۔ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد اچانک 17 سے 34 یعنی دگنی کر دی۔
اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ 17 سے 24 جج کر دیے جائیں گے مگر 34 یعنی 17 نئے سپریم کورٹ کے ججوں کا اضافہ تو ایک حیران کن خبر تھی۔
اس کا یہ مطلب ہوا کہ ایک طرح سے ایک بالکل نئی سپریم کورٹ یعنی سترہ مزید جج صاحبان لگائے جائیں گے۔ یہ جج جوڈیشل کمیشن لگائے گا، جس میں حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے ۔اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کیا ہو گا۔
دوسری طرف کورٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ایک اور ترمیم کر دی گئی ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ کے بینچ بنانے والی کمیٹی میں چیف جسٹس اور سینیئر ترین جج کے علاوہ تیسرے رکن آئینی بینچ کے سربراہ ہوں گے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو جسٹس منیب اختر شاید اس کمیٹی میں پھر سے نہ ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ  یہ سب ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے کیا گیا ہے جس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں پڑی۔

اب تو 27ویں آئینی ترمیم کا منظور ہونا بھی بائیں ہاتھ کا کھیل لگ رہا ہے (فائل فوٹو: قومی اسمبلی)

جس قطعیت، آسانی اور اعتماد سے یہ سب اقدامات کیے گئے، اس کے بعد اگر کسی روز کوئی اور قانون سازی ہو تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اب تو 27ویں آئینی ترمیم کا منظور ہونا بھی بائیں ہاتھ کا کھیل لگ رہا ہے بلکہ حکمران اتحاد کے ایک اہم رہنما کے بقول ہم پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے 127ویں ترمیم بھی لا سکتے ہیں۔ ٹھیک کہا انہوں نے ، میرا نہیں خیال کہ پیر کو ہونے والی قانون سازی کے بعد کوئی اس رائے پر شک کر سکتا ہے۔
پیر کے روز ایک اور دلچسپ اور معنی خیز اقدام شرح سود میں کمی کا اٹھایا گیا۔ اچانک اڑھائی فیصد کمی کر کے شرح سود 15 فیصد تک کر دی گئی۔
یاد رہے کہ ستمبر میں بھی یہ شرح دو فیصد کم کی گئی یعنی پانچ چھ ہفتوں میں شرح سود ساڑھے چار فیصد تک کم ہوئی ہے۔ کاروباری طبقات اس پر یقیناً مسرور ہوئے ہوں گے کیونکہ شرح سود کم ہونے سے سرمایہ دار نئے قرضے لیں گے جس سے کاروباری مواقع پیدا ہوں گے۔
سٹیٹ بینک نے اس نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان  کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح توقع سے زیادہ تیزی سے نیچے آئی ہے اور اکتوبر میں مہنگائی کی شرح سوا سات کے لگ بھگ رہی۔سٹیٹ بینک نے یہ بھی مژدہ سنایا کہ سٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر  اگلے سال جون تک 13 ارب ڈالر ہوں گے۔
معاشی اعتبار سے ایک اور بڑی اہم اور دلچسپ خبر یہ بھی ہے کہ اکتوبر یعنی پچھلے مہینے میں پاکستان کی ایکسپورٹ تقریباً تین ارب ڈالر رہی جو کہ پچھے سال اکتوبر سے 11 فیصد زیادہ ہے جبکہ ستمبر 2024  سے پانچ فیصد زیادہ۔ امپورٹ آٹھ فیصد کمی کے ساتھ ساڑھے چار ارب ڈالر کے قریب رہی۔ ایکسپورٹ میں اضافہ اور امپورٹ میں کمی ہونا خوش آئند ہوتا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کا تجارتی خسارہ پچھلے سال اکتوبر 2023 کی نسبت 31 فیصد کم ہو کر اس سال اکتوبر میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے قریب رہا۔
یہ پاکستان کے ادارہ شماریات کے اعداد و شمار ہیں۔
سٹاک ایکسچینج کے بارے میں آپ جانتے ہی ہوں گے کہ وہ ہر روز نیا ریکارڈ بنا رہی ہے اور 92 ہزار پوائنٹس تک جا چکی ہے۔ اس اعتبار سے تو ایک لاکھ پوائنٹس تک  جانا کچھ عجب نہیں۔

زراعت سمیت کئی شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کاری کے واضح آثار نظر آ رہے ہیں (فائل فوٹو: پی ایم او)

میرے پاس کوئی خبر نہیں، اِنسائیڈ معلومات نہیں، البتہ یہ تو صاف نظر آرہا ہے کہ پارلیمنٹ سے 26ویں ترمیم منظور کرا کر اور پارلیمنٹ سے حالیہ قانون سازی کے بعد موجودہ حکومتی سیٹ اپ زیادہ پراعتماد محسوس کر رہا ہے۔ سب ایک پیج پر ہیں۔ اگر کوئی خطرہ تھا تو وہ اب ٹل چکا۔ اس قدر بڑے پیمانے پر اتھل پتھل ہو رہی ہے کہ بہت کچھ بدل جائے گا۔
میرے جیسے معاشیات سے نابلد عام اخبار نویس کو اگرچہ یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ سٹاک مارکیٹ کیوں کر سرکش گھوڑے کی طرح بگٹٹ اوپر کی طرف دوڑی جا رہی ہے ۔سیاسی عدم استحکام کے باوجود ہماری ایکسپورٹ بڑھنے کے پیچھے تو چلیں  بنگلہ دیش کے مضطرب حالات ہو سکتے ہیں جن کے باعث پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹر کو زیادہ آرڈر مل گئے ۔ تاہم ابھی بہت کچھ مزید سمجھ نہیں آ رہا۔
دوسری طرف لگ رہا ہے کہ ایس آئی ایف سی جیسا ادارہ چند ماہ تک مخمور رہنے کے بعد یکایک انگڑائی لے کر بیدار ہو گیا ہے اور زراعت سمیت کئی شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کاری کے واضح آثار نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے دوست ممالک پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرنے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں معیشت کی بہتری کا مطلب مستحکم حکومت ہے۔ اگر معاشی اشاریے بہتر رہیں، ایکسپورٹ بڑھی اور امپورٹ پر کنٹرول رہا، غیرملکی سرمایہ کاری جاری رہی تو مقامی سرمایہ کار کا اعتماد بھی بحال ہو گا۔ کم شرح سود کے ساتھ مہنگائی میں کمی رہی ، پیٹرول کی قیمتوں میں بتدریج کمی آتی گئی تو عوامی اضطراب اور پریشانی میں کمی آئے گی۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کی بارگیننگ پاور کم ہو گی، ان کے پر زور عوامی احتجاج کے ذریعے دبائو بڑھانے کا امکان بھی کمزور ہو گا۔
یہ وہ نکتہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کو بھی ان حالات اور تبدیلیوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ جبکہ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی مضبوطی اور استحکام کے بعد خود اعتمادی کا مظاہرہ کرے اور اپوزیشن کو کچھ سپیس دے۔ کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ سب جماعتیں اکھٹی ہو کر میثاق معیشت کریں۔حالات تو ایک نیشنل گورنمنٹ کےمتقاضی ہیں، وہ اگر نہ ہوا تب بھی کم از کم ایک نیا میثاق معیشت، نیا میثاق جمہوریت ضرور طے ہونا چاہیے۔

شیئر: