مستونگ بم دھماکے میں کمسن بچوں کی موت، ’ہم پر قیامت ٹوٹی ہے‘
مستونگ بم دھماکے میں کمسن بچوں کی موت، ’ہم پر قیامت ٹوٹی ہے‘
بدھ 6 نومبر 2024 5:48
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
شدت غم کی وجہ سے بھائی عبدالمنان اور ان کی اہلیہ دونوں کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں (فوٹو: اردو نیوز)
’سانحہ مستونگ نے ہمارا ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا، بھائی اور بھابھی دو بچوں کو کھونے کے بعد صدمے سے ہی نکل نہیں پا رہے، بھائی غم کی تصویر بنے ہوئے ہیں تو بھابھی پر غشی دورے پڑ رہے ہیں، دونوں سانحے کے کئی دن بعد بھی اپنے گھر جانے کی ہمت نہیں کر پا رہے کیونکہ اس گھر کے ہر کونے سے ان کے معصوم بچوں کی یادیں وابستہ ہیں۔‘
کوئٹہ سے متصل بلوچستان کے شہر مستونگ میں جمعے کو سرکاری سکول اور ہسپتال کی عمارتوں کے باہر ہونے والے بم دھماکے میں سکول کے پانچ کم عمر طلبہ سمیت 8 افراد کی جانیں گئیں جبکہ سکول کے طلبہ سمیت 30 افراد زخمی ہوئے۔ مستونگ کے کلی کونگھڑکے رہائشی عبدالمنان کی نو سالہ بیٹی خیر النساء اور 12 سالہ بیٹا امیر حمزہ بھی اس دھماکے میں جان کی بازی ہار گئے۔
عبدالمنان کے بھائی عبدالواحد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بیٹا اور بیٹی کھونے کے بعد شدت غم کی وجہ سے بھائی عبدالمنان اور ان کی اہلیہ دونوں کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں، بھابھی کو ہر چند گھنٹوں بعد ہسپتال لے جانا پڑ رہا ہے، وہ بیٹے یا بیٹی کی کسی بات کو یاد کرکے روتے روتے بے ہوش ہو جاتی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بھائی بھی الگ تھلگ اور خاموش رہنے لگ گئے ہیں۔ سانحہ کو پانچ دن گزر گئے لیکن بھائی اب تک اپنی اہلیہ سے نہیں ملے کیونکہ انہیں ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہو پا رہی۔
ان کے بقول دونوں میاں بیوی اس واقعے کے بعد سے اپنے گھر بھی نہیں گئے اور ہمارے گھر رہ رہے ہیں۔ چند قدم کی دوری کے باوجود ان کا اپنے گھر جانے کا اس لیے دل نہیں کر رہا کیونکہ وہاں جا کر انہیں خیر النساء اور امیر حمزہ کی یاد ستائے گی جن سے وہ بے حد پیار کرتے تھے۔
عبدالواحد کا کہنا ہے کہ دونوں بچوں کی وجہ سے گھر میں رونق رہتی تھی لیکن اب گھر میں بس خاموشی اور سکوت ہی ہے۔ اولاد کا غم بہت مشکل ہوتا ہے ایک بھی بچھڑ جائے تو صبر نہیں آتا۔ میرے بھائی کے دو تو بہت پیارے اور معصوم بچے ظالموں نے چھین لیے۔
عبدالواحد کے مطابق ’خیر النساء نو سال کی تھی اور تیسری جماعت میں پڑھتی تھی۔ امیر حمزہ ان سے تین سال بڑا اور پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ دونوں جمعے کی صبح گھر سے سکول کے لیے نکلے تھے۔ سکول گھر سے چار پانچ کلومیٹر دور تھا اس لیے وہ رکشہ میں محلے کے باقی بچوں کے ساتھ جاتے تھے۔ ان کے ساتھ رکشہ ڈرائیور کا بیٹا اور دو اور بچے بھی شہید ہوئے۔‘
خیر النساء اور امیر حمزہ کے والد عبدالمنان بات کرتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکے۔ بھیگتی آنکھوں کے ساتھ اپنی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ امیر حمزہ ڈاکٹر اور خیر النساء ٹیچر بننا چاہتی تھیں لیکن سب خواب ادھورے رہ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پر کیا قیامت ٹوٹی ہے، اس کا اندازہ صرف انہیں ہو سکتا ہے جو ایسے کسی صدمے سے گزرے ہوں۔‘
عبدالمنان کا کہنا تھا کہ ہمارے بچوں کا کیا قصور تھا۔ انہوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا، کیوں انہیں نشانہ بنایا گیا؟ سارے پاکستان کے حالات اچھے نہیں مگر مستونگ میں یہ پہلا سانحہ نہیں۔ ’یہ شہر لاوارث بن چکا ہے ہر چند ماہ اور سال بعد یہاں کوئی نہ کوئی بڑا سانحہ ہو جاتا ہے۔ یہاں دہشت گردی اور ظلم و ستم کا ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ معلوم نہیں کب تک ہمارے بچے اور جوان اسی طرح مرتے رہیں گے اور کب ہمیں امن نصیب ہوگا؟‘
عبدالواحد کا کہنا تھا کہ ’نشانہ بننے والے سبھی بچے کم عمر اور سکول کے طالب علم تھے۔ معصوم بچوں کی کسی کے ساتھ کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ معلوم نہیں کون سے سنگدل اور ظالموں نے یہ کیا ہے۔ ہم تو غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، کسی سیاسی جماعت سے بھی تعلق نہیں، بمشکل دو وقت کی روٹی کما پاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مستونگ میں ہر سال کوئی نہ کوئی بڑا سانحہ ہو جاتا ہے۔ پچھلے سال ایک جلوس پر بم حملے میں 50 سے زائد لوگ مارے گئے۔ اس سے پہلے 2018 میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد صرف ایک حملے میں لقمۂ اجل بنے۔ اب لوگ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے اور خود بھی گھر سے نکلنے اور بازار جانے سے خوفزدہ رہنے لگ گئے ہیں۔ بچوں کو سکول نہ بھیجیں تو ان کا مستقبل تباہ ہو جائے گا اور اگر بھیجتے ہیں تو ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے۔ اللہ ہی ہمارے حالات پر رحم کرے۔‘
عبدالمنان کی طرح مستونگ کے رہائشی ملک محمد حسین خواجہ خیل کا بیٹا حمزہ بھی مستونگ دھماکے میں لقمۂ اجل بنا۔ 14 سالہ ملک حمزہ نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ دھماکے میں شدید زخمی ہوا۔ انہیں مستونگ کے ایک ہسپتال سے دوسرے سرکاری ہسپتال اور پھر کوئٹہ کے سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر پہنچایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔
ملک محمد حسین کہتے ہیں کہ ’حمزہ نے اپنی آخری رات بخار اور جسم میں درد کی وجہ سے تکلیف میں گزاری۔ صبح آٹھ بجے میں نے اسے جگایا کہ سکول جانا ہے یا آرام کرنا ہے لیکن بخار کے باوجود حمزہ نے کہا کہ وہ سکول جائے گا کیونکہ اس کا پرچہ ہے اور کل آخری پرچہ ہے۔ اس کے بعد چھٹی کر لوں گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بخار اور طبیعت خراب ہونے کے باوجود میرا بیٹا سکول گیا۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ وہ واپس نہیں آئےگا تو کبھی اسے سکول ہی نہیں بھیجتا۔
ملک محمد حسین کے مطابق چار بیٹوں اور بیٹی میں حمزہ سب سے چھوٹا تھا۔ اس لیے سب سے زیادہ لاڈلا تھا۔ وہ اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے بھی سب کو بہت پیارا تھا۔و ہ ہمیشہ بڑوں کا کہا مانتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بیٹا پڑھائی میں تھوڑا کمزور تھا اس لیے میں ان کی والدہ سے کہتا تھا کہ بچے پر زیادہ سختی نہ کریں۔ حمزہ کہتا تھا کہ مجھے پڑھائی کا شوق نہیں، میں آپ کی طرح ٹھیکیدار بننا چاہتا ہوں۔‘
ملک محمد حمزہ کے بھائی ملک ہارون نے بتایا کہ بھائی کو شدید زخمی حالت میں سول ہسپتال پہنچایا۔ اس کے بعد اسے نواب غوث بخش ہسپتال لے جایا گیا اور پھر کوئٹہ۔ اس دوران بہت وقت ضائع ہو گیا، یہاں کے ہسپتالوں میں سہولیات ہوتیں تو آج میرا بھائی زندہ ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں عملہ ہوتا ہے اور نہ ہی سہولیات۔ ہر بار ایسے حادثات کے بعد بروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
’کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، ڈی پی او سمیت کوئی اعلیٰ افسر موقع پر پہنچا اور نہ ہی کئی دن گزرنے کے باوجود لواحقین کا حال پوچھا گیا۔‘
نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر سکول ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری حاجی نذیر احمد سرپرہ کا کہنا ہے کہ ’یہ تعلیم دشمن افراد کی واردات ہے جنہوں نے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جہاں سرکاری ہسپتال کے ساتھ لڑکیوں کا سرکاری سکول اور پبلک لائبریری تھی۔ یہاں صبح کے وقت ہمیشہ طلبہ کا رش رہتا ہے۔ معصوم بچوں اور نہتے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’مستونگ میں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ یہاں سینکڑوں لوگ ایسے بم دھماکوں اور دہشت گردی کی زد میں آ کر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ سانحے پر سانحہ ہو رہا ہے مگر حکومت اسے روکنے میں ناکام ہے۔ دہشت گرد آ کر کارروائی کرکے چلے جاتے ہیں مگر کوئی پکڑا نہیں جاتا۔ شہر میں سیف سٹی کے کیمرے لگے ہیں مگر فعال نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو شہر میں سکیورٹی کے انتظامات کو بہتر بنا کر یہاں کے لوگوں کو تحفظ کا احساس دلانا ہو گا۔
مستونگ پولیس کے ضلعی سربراہ ایس پی رحمت خان کا کہنا ہے کہ واقعہ کی تفتیش کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کر رہا ہے۔ ’اس سلسلے میں تمام متعلقہ ادارے ان کے ساتھ مدد کررہے ہیں۔ اب تک کسی تنظیم نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تفتیش میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی لیکن ہماری پوری کوششیں جاری ہیں کہ ذمہ داران کو تلاش کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں۔‘