Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلٰی اور گورنر خیبر پختونخوا کی ’خوشگوار ملاقات‘، کیا برف پگھل گئی؟ 

بعض مبصرین کے مطابق دونوں کے درمیان برف پگھل گئی ہے تو کچھ اس ملاقات کو وزیراعلٰی کی وفاق سے قربت سمجھتے ہیں (فائل فوٹو: گورنر ہاؤس)
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور گورنر فیصل کریم کنڈی کی بدھ کو گورنر ہاؤس پشاور میں ملاقات ہوئی جس میں صوبے کے مسائل پر گفتگو کی گئی۔
علی امین گنڈاپور اور فیصل کریم کنڈی ایک دوسرے کے سخت سیاسی حریف سمجھے جاتے ہیں اسی لیے دونوں نے اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھاتے ہی ایک دوسرے کے خلاف سیاسی مورچہ بھی سنبھال لیا۔
 میڈیا کے ذریعے دونوں کے درمیان متعدد مرتبہ گرما گرم سیاسی بیانات اور تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور گورنر کی جانب سے وزیراعلٰی پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے اور ان سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
 گورنر کے بیانات کے جواب میں وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے فیصل کریم کنڈی کو گورنر ہاؤس سے نکالنے کی دھمکی دے دی، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کے لہجے میں نرمی اور رویوں میں تبدیلی آنے لگی۔
خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی اور گورنر پہلی بار کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے معاملے پر منعقد ہونے والے جرگے میں ایک ساتھ بیٹھے ہوئے نظر آئے تھے۔ 
گورنر اور وزیراعلٰی کی دوسری ملاقات کیسے ہوئی؟
وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور اور گورنر فیصل کریم کنڈی کی یہ ملاقات بدھ کو گورنر ہاؤس پشاور میں ملاقات ہوئی۔
ملاقات میں دونوں رہنما پہلی بار ایک دوسرے کے ساتھ خوش گوار موڈ میں نظر آئے، اس ملاقات کی تصویر منظرِعام پر آنے کے بعد سیاسی مبصرین مختلف رائے قائم کرنے لگے۔
بعض کا کہنا ہے کہ دونوں کے درمیان برف پگھل گئی ہے تو کچھ اس ملاقات کو  وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور کی وفاق سے قربت قرار دے رہے ہیں۔ 
کیا وزیراعلٰی اور گورنر کی یہ ملاقات پہلے سے طے تھی؟  
خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی کے ترجمان نے موقف اپنایا کہ گورنر اور وزیراعلٰی کی ملاقات صوبائی وزیر کی حلف برداری کی تقریب کے بعد اچانک ہوئی جو کہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھی۔
’وزیراعلٰی تقریب میں شرکت کے لیے گورنر ہاؤس آئے تھے اور اس دوران ہونے والی ملاقات میں صوبے میں امن و امان کی صورت حال، اس کی مشکلات اور وفاق کے ساتھ مسائل پر بات ہوئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملاقات کے دوران گورنر نے صوبے کے مسائل اور ان کے حل کے لیے وزیراعلٰی کو وفاق سے بات چیت کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

ترجمان گورنر کے مطابق ملاقات میں صوبے میں امن و امان کی صورت حال اور وفاق کے ساتھ مسائل پر بات ہوئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 ترجمان گورنر کے مطابق خوش گوار ماحول میں ہونے والی اس ملاقات میں غیر سیاسی گفتگو ہوئی۔
’گورنر کا کہنا تھا کہ صوبے میں سیاست الیکشن کے دنوں میں کریں گے لیکن فی الحال یہ وقت صوبے میں اتفاق اور اتحاد کا ہے جس کے ذریعے عوام کے مسائل حل کریں گے۔‘
دوسری جانب ترجمان وزیراعلٰی ہاؤس کے مطابق دونوں کی ملاقات شیڈول کے بغیر ہوئی، تاہم حلف برداری کی تقریب کے بعد علی امین گنڈاپور اور فیصل کریم کنڈی کی صرف 10 منٹ کی ملاقات ہوئی جس میں کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہوئی۔
’موجودہ ماحول میں وزیراعلٰی اور گورنر کی ملاقات، پریشان عوام کے لیے امید کی کرن ہے‘ 
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی محمود جان بابر نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس ماحول میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات صوبے کے پریشان عوام کے لیے امید کی کرن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عوام یہی چاہتے ہیں کہ دونوں آپس میں بیٹھ جائیں اور عوامی مسائل پر بات کریں، تاہم ہمیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ دونوں فیصلے لینے میں آزاد نہیں ہیں۔

ترجمان وزیراعلٰی ہاؤس کا کہنا ہے کہ 10 منٹ کی ملاقات ہوئی کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہوئی (فائل فوٹو: گورنر ہاؤس)

صحافی محمود جان بابر کے مطابق گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے اور اگر وہ وفاق کا ایجنڈا لے کر آگے نہیں جاتا تو آپ اندازہ لگائیں کہ وہ کس حیثیت میں اُن سے بات کرسکتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ وفاقی حکومت سے درخواست ہی کرسکتا ہے۔ 
’دوسری جانب وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور بھی کوئی فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں ہیں، وہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی مرضی کے بغیر گورنر سے کیسے بات کرسکتے ہیں؟‘
 محمود جان بابر کا مزید کہنا تھا کہ علی امین گنڈاپور نے نئی تحریک شروع کی ہے جس میں وہ ہر جگہ جا کر وفاق کے خلاف اپنے ورکرز کا لہو گرما رہے ہیں، اگر وہ گورنر کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں تو وہ پھر کس منہ سے کارکنوں سے خطاب کریں گے؟
’گورنر کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے وزیراعلٰی پارٹی کے اندر معاملات خراب نہیں کرنا چاہیں گے۔ یہ ایک اتفاقیہ بیٹھک تھی جس میں کوئی سنجیدہ گفتگو نہیں ہوئی۔‘
محمود جان بابر کہتے ہیں کہ دونوں کے درمیان ملاقات میں گورنر کا بھائی اور وزیراعلٰی کا بیٹا بھی موجود تھا، لہٰذا ایسے ماحول میں کوئی اہم گفتگو نہیں ہوسکتی۔
دوسری جانب کچھ مبصرین اس ملاقات کو صوبے کے لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ ان کی رائے کے مطابق صوبے کے دو اہم عہدوں پر بیٹھی شخصیات کی ملاقات کے دُور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ 

شیئر: