نواز شریف کی درخواست پر نااہل قرار دیے گئے ایم این اے عادل خان بازئی کون ہیں؟
نواز شریف کی درخواست پر نااہل قرار دیے گئے ایم این اے عادل خان بازئی کون ہیں؟
جمعرات 21 نومبر 2024 14:52
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
ملک عادل خان بازئی نے وضاحت کی تھی کہ وہ پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور رہیں گے (فائل فوٹو: عادل بازئی، انسٹاگرام)
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کوئٹہ سے قومی اسمبلی کے رکن ملک عادل خان بازئی کو نااہل قرار دے دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حلقہ این اے 262 کوئٹہ کی نشست کو بھی خالی قرار دے دیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عادل خان بازئی سے متعلق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس پر جمعرات کو فیصلہ سنایا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عادل بازئی نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی اور بجٹ سیشن اور 26ویں آئینی ترمیم میں پارٹی پالیسی کے برخلاف ووٹ دیا۔ مروجہ قوانین کے تحت تمام ارکان پارٹی گائیڈ لائنز پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
نواز شریف نے پارٹی سربراہ کے طور پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت عادل بازئی کے خلاف کارروائی کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کو درخواست کی تھی۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ عادل بازئی نے آزاد امیدوار کے طور پر کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی تھی، تاہم ملک عادل خان بازئی اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی ن لیگ میں شمولیت اختیار کی۔
فیصلے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے بیان میں عادل خان بازئی کا کہنا تھا کہ اصولوں کی سیاست اور عمران خان کے لیے اپنا سب کچھ قربان، جیت حق اور سچ کی ہوگی۔‘
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے روپوش رہنما قاسم خان سوری نے کہا ہے کہ تاریخ ہمیشہ بہادروں کو یاد رکھتی ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ہارے یا جیتے۔ عادل خان بازئی اپنے کپتان سے وفا نبھا گیا۔ ملک عادل خان بازئی کون ہیں؟
ملک عادل بازئی کا تعلق کوئٹہ اور پشتونوں کے بازئی قبیلے سے ہے۔ انہوں نے فروری 2024 میں انہوں نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اور کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 262 پر آزاد حیثیت سے ممبر منتخب ہوئے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ امیدوار تھے۔
عادل بازئی اس سے پہلے 2022 اور2023 میں وزیراعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے کوارڈینیٹر رہ چکے ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی ملک نعیم بازئی ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔
26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت عادل بازئی نے دعویٰ کیا تھا کہ ووٹ نہ ڈالنے کی سزا دینے کے لیے کوئٹہ میں اُن کے زیرِتعمیر پلازے کو گرایا جا رہا ہے۔
عادل بازئی کی پی ٹی آئی چھوڑنے اور ن لیگ میں شمولیت سے متعلق فروری کے تیسرے ہفتے میں بھی اس وقت تنازع اٹھا تھا جب الیکشن کمیشن نے آزاد ارکان کو کسی پارٹی میں شمولیت کے لیے دی گئی مہلت ختم ہونے کے بعد خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم اور پارٹی پوزیشن کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
اس نوٹیفکیشن میں عادل بازئی سمیت بلوچستان سے دو آزاد ارکان کو مسلم لیگ ن کا حصہ قرار دیا گیا، تاہم عادل بازئی نے اس کی فوری تردید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے پارٹی پالیسی کے مطابق پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا حلف نامہ الیکشن کمیشن میں 20 فروری کو جمع کرا دیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملک عادل بازئی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن 15 فروری 2024 کو جاری ہوا تھا جس کے بعد قانون کے تحت ان کے پاس کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کے لیے تین دن کی مہلت تھی اور یہ مہلت 18 فروری کو ختم ہوگئی تھی۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے 18 فروری جبکہ سنی اتحادل کونسل نے 20 فروری کو عادل بازئی کی شمولیت سے متعلق سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا۔
اس طرح پی ٹی آئی کی اتحادی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے حلف نامے کی قانونی حیثیت کے بارے میں بھی سوالات سوالات پیدا ہوگئے تھے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور انتخابی قوانین کے ماہر سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اس وقت کہا تھا کہ ’نوٹیفکیشن کے تین دن کے بعد کسی جماعت میں شمولیت کے حلف نامے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔‘
اس سے پہلے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد بھی ملک عادل بازئی کی ن لیگ میں شمولیت کی خبریں سامنے آئی تھیں جس پر انہیں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس کے بعد وہ منظر سے غائب ہو گئے تھے۔اس وقت پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اعظم سواتی نے انکشاف کیا تھا کہ ’ملک عادل بازئی کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے اور ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔‘
تاہم عادل بازئی نے اپنا ویڈیو بیان جاری کر کے کہا تھا کہ ’انہیں کسی نے گرفتار نہیں کیا، ان کی والدہ بیمار ہیں اس لیے انہوں نے اپنا فون بند رکھا ہوا تھا۔‘
اس ویڈیو بیان میں ملک عادل خان بازئی نے وضاحت کی تھی کہ وہ پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور رہیں گے۔