سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملنے کا واحد راستہ کیا؟
سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملنے کا واحد راستہ کیا؟
منگل 23 اپریل 2024 7:11
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
21 اپریل کو ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 21 نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے۔
غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں میں سے دو نشستیں مسلم لیگ ن نے حاصل کیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور سنی اتحاد کونسل کے حصے میں ایک ایک نشست آئی۔ ایک نشست آزاد امیدوار کے نام بھی رہی۔
اسی طرح 16 صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر مسلم لیگ ن نے 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی، سنی اتحاد کونسل اور استحکام پاکستان پارٹی کو ایک ایک نشست پر کامیابی ملی۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی کو بھی ایک ایک نشست ملی جبکہ ایک نشست آزاد امیدوار کے حصے میں آئی۔
سنی اتحاد کونسل کے ٹکٹ پر خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی علی امین گنڈا پور کے بھائی فیصل امین نے این اے 44 سے کامیابی حاصل کی جبکہ پی کے 91 کوہاٹ سے سنی اتحاد کونسل کے داؤد شاہ کامیاب ہوئے ہیں۔
ایسے میں یہ سوال ایک بار پھر گردش کر رہا ہے کہ کیا سنی اتحاد کونسل کو اب مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں؟
پشاور ہائی کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے تھے کہ ’مخصوص نشستیں تب ملتی ہیں جب سیاسی جماعتوں نے نشستیں جیتی ہوں اور سنی اتحاد کونسل نے کوئی نشست جیتی ہی نہیں۔‘
اس کے جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ’جب آزاد امیدواروں نے شمولیت اختیار کی تو یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کی ہو گئیں۔‘
عدالت نے بیریسٹر علی ظفر کو بتایا کہ ’قانون میں لفظ سکیور آیا ہے، آپ نے نشستیں سکیور نہیں کیں۔‘
سنی اتحاد کونسل کا ایک ممبر پارٹی ٹکٹ پر قومی اسمبلی اور ایک خیبر پختونخوا اسمبلی کی نشست جیت چکا ہے جبکہ سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائی کورٹ کا مخصوص نشستوں کے خلاف فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر آنے والے ممبران نے تاحال حلف نہیں اٹھایا۔ اس حوالے سے خبر گردش کر رہی ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے تک اجلاس بھی نہیں بلا رہی۔
اس صورت حال میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کے مطابق مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے واحد راستہ سپریم کورٹ کی تشریح کے ذریعے نکل سکتا ہے۔
احمد بلال محبوب نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ اُس وقت کیا تھا جب یہ (ضمنی) انتخابات نہیں ہوئے تھے۔
’اُس وقت فیصلہ کرنا ضروری تھا۔ اب عام انتخابات ہو گئے ہیں اور ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ جن کو مخصوص نشستیں مل گئیں ہیں وہ واپس کر کے تبدیل کر دیے جائیں کیونکہ یہ فیصلہ تو پہلے ہو چکا ہے لیکن سپریم کورٹ میں ایک امکان موجود ہے کہ پارٹی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے تو یہ فیصلہ ریورس ہوسکتا ہے تاہم صرف اِس وجہ سے کہ ضمنی انتخابات میں دو سیٹیں جیتی ہیں یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔‘
احمد بلال محبوب کے مطابق اگر اس دوران خیبر پختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر حلف اٹھا لیا جاتا ہے اور سپریم کورٹ تشریح کر کے اسے غیر قانونی قرار دے تو یہ نشستیں خالی ہو جائیں گی۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’اِن دو نشستوں کے علاوہ پہلے ہی آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکے ہیں، اس لیے وہ پہلے سے پارلیمانی جماعت ہے۔ یہ غلط تشریح کی گئی تھی کہ پارٹی کی ٹکٹ پر کوئی منتخب نہیں ہوا تو وہ پارلیمانی جماعت نہیں ہے۔‘
اس کے برعکس سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔
ان کے بقول ’اب چونکہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں کوئی مخصوص نشست خالی نہیں رہی اور تمام سیٹیں تقسیم ہو گئیں ہیں، اس لیے اب یہ امکان نظر نہیں آتا۔‘
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان اور کور کمیٹی کے ممبر شعیب شاہین کے مطابق پارٹی نے پہلے ہی اپیل دائر کر رکھی ہے۔ ’میرے خیال میں اب تو ہمارا کیس واضح ہو گیا ہے۔ اب سنی اتحاد کونسل بھی قانوناً پارلیمانی جماعت ہو گئی ہے اور ان کے پارٹی نشان پر الیکشن لڑ کر ممبران بھی منتخب ہوئے ہیں اس لیے ابھی مخصوص نشستیں مل جانی چاہیے۔‘
انہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مزید بتایا کہ پارٹی اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر چکی ہے۔
ان کے بقول ’فی الحال تو وہی پٹیشن موجود ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو دوسری پٹیشن بھی دائر کر سکتے ہیں لیکن تاحال پارٹی کے کسی ایسے فیصلے کا ذکر ہمارے سامنے نہیں ہوا۔‘