Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چترال:امریکی شکاری نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی بولی دے کر مارخور شکار کر لیا

 امریکی شکاری رانالڈ جیو وہنٹن نے چترال میں واقع تھوشی شاشہ کمیونٹی منیجڈ گیم ریزرو میں پاکستان کے قومی جانور کشمیر مارخور کا رواں سیزن کا پہلا شکار کر لیا ہے۔
امریکی شکاری رانالڈ جوئے وہنٹن  نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی بولی لگا کر کشمیر مارخور کے شکار کا پرمٹ حاصل کیا تھا۔
ڈویژنل فارسٹ آفیسر (وائلڈ لائف) چترال فاروق نبی نے اردو نیوز کو بتایا کہ امریکی شکاری نے اس شکار کے لیے پرمٹ رواں برس اکتوبر میں کھلی بولی میں ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی رقم  یعنی دو لاکھ 71 ہزار ڈالر (ساڑھے سات کروڑ سے زائد روپے) ادا کر کے حاصل کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مذکورہ شکاری نے یہ شکار اتوار کو تھوشی شاشہ مارخور کنزرونسی میں وائلڈ لائف حکام کے زیرنگرانی کیا۔
فاروق نبی نے بتایا کہ شکار کیے گئے مارخور کے سینگوں کا سائز 49.5 انچ ہے۔
ڈی ایف او کے مطابق شکار کیے گئے مارخور کی عمر 11 سال تھی۔
خیال رہے رواں برس اکتوبر میں محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا نے صوبے کو الاٹ کیے گئے مارخور کے شکار کے چار پرمٹس نیلام کیے تھے۔
اس نیلامی میں چترال کے تھوشی ون کنزرونسی اور تھوشی ٹو کنزرونسی کے دونوں پرمٹ ریکارڈ دو لاکھ 71 ہزار فی پرمٹ کے حساب سے فروخت ہوئے تھے۔  
کوہستان کے علاقے کیگا کی کنزرونسی میں مارخور کے شکار کا ایک پرمٹ ایک لاکھ 81 ہزار ڈالر سے زائد میں فروخت ہوا تھا۔
گہریت گول چترال کی کمیونٹی منیجیڈ گیم ریزرو میں مارخور کے شکار کا واحد پرمٹ ایک لاکھ 80 ہزار ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔
محکمہ وائلڈ لائف حکام کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کی آمدنی کا 80 فیصد حصہ متعلقہ علاقوں کے رہائشیوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور جنگلی حیات کے تحفظ کی سرگرمیوں کے لیے بھی رقم دی جاتی ہے۔

پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کا آغاز

پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کی شروعات 1999 سے ہوئی۔ 1997 میں کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ اِن انڈینجرڈ سپیشیز سے متعلق زمبابوے میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کو مارخور کے غیرقانونی شکار کو روکنے کے لیے ہنٹنگ ٹرافی دینے کی اجازت دی گئی۔
 ابتدا میں پاکستان کو سال میں چھ ٹرافیوں کی اجازت دی گئی جسے بعد میں بڑھا کر 12 کر دیا گیا۔
فاروق نبی نے بتایا کہ ٹرافی ہنٹنگ اور کمیونٹی منیجڈ کنزرویشن کی بدولت چترال میں کشمیر مارخور کی تعداد جو 1999 میں چند سو تھی اب ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔

پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ سکیم کے تحت ہر سال مارخور کے شکار کے لیے 12 لائسنسز جاری کیے جاتے ہیں (فوٹو: وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ چترال)

پاکستان میں مارخور خيبر پختونخوا کے علاقے چترال، کوہستان، گلگت بلتستان کے ضلع استور پاکستان کے زيرِانتظام کشمير اور صوبہ بلوچستان ميں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں پائے جاتے ہيں۔
خیال رہے پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ سکیم کے تحت ہر سال مارخور کے شکار کے لیے 12 لائسنسز جاری کیے جاتے ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات چترال کے افسر کے مطابق شکار کے بعد محکمہ جنگلی حیات کے اہلکار شکار کیے گئے مارخور کے سینگوں کی پیمائش کرتے ہیں جسے شکاری کے حوالے کیا جاتا ہے۔ شکاری سینگ کو بطور ٹرافی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ ان کے مطابق عموماً شکاریوں کی دلچسپی مارخور کے گوشت میں نہیں ہوتی۔

ٹرافی ہنٹنگ کیوں کی جاتی ہے؟

محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ کی شروعات مارخور کے غیرقانونی شکار کو روکنے اور ان کی نسل کو محفوظ بنانے کے لیے کی گئی تھی۔
وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ چترال کے ڈی ایف او فاروق نبی کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر ٹرافی ہنٹنگ کا مقصد لوکل کمیونٹی کی جانب سے مارخور کے غیر قانونی شکار کو روکنا ہے۔

ڈی ایف او فاروق نبی کے مطابق ٹرافی کی رقم کا 80 فیصد مقامی کمیونٹی پر خرچ کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ چترال)

ان کے مطابق پہلے مقامی کمیونٹی مارخور کا غیرقانونی طریقے سے بے دریغ شکار کرتی تھی جس کی بنیادی وجہ غربت اور آگاہی کی کمی تھی۔ تاہم کنزرویشن اور ٹرافی ہنٹنگ کی شروعات کے بعد غیرقانونی شکار میں کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرافی کی رقم کا 80 فیصد مقامی کمیونٹی پر خرچ کیا جاتا ہے۔ مقامی تنظیم کے ذریعے یہ رقم صحت، صاف پانی اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔   
فاروق نبی کا کہنا تھا کہ مارخور کے شکار کی ایک اور وجہ بھے ہے 'مارخور کی جو نسل بوڑھی ہو جاتی ہے تو ان کی بریڈنگ کے نتیجے میں جو جانور پیدا ہوتے ہیں وہ جینیاتی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ اس لیے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹرافی ہنٹ میں بڑی عمر کے جانوروں کا شکار کرایا جائے تاکہ بوڑھے جانور ختم بھی ہوں اور ان کے بدلے میں مقامی کمیونٹی کو سہولیات کی فراہمی کے لیے رقم بھی میسر ہو۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ ٹرافی ہنٹنگ کی نیلامی ڈالروں میں ہوتی ہے تو یہ ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمانے کا سبب بھی بنتا ہے۔

شیئر: