’دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے باوجود شامی باغی گروپ سے بات ہو سکتی ہے‘
’دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے باوجود شامی باغی گروپ سے بات ہو سکتی ہے‘
منگل 10 دسمبر 2024 6:28
اتوار کو باغیوں کے دمشق میں داخل ہونے پر بشارالاسد اور ان کا خاندان ملک چھوڑ گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ شامی باغی گروپ ھیئۃ التحریر الشامکے بطور ’غیرملکی دہشت گرد تنظیم‘ کے حوالے سے کوئی جائزہ نہیں لیا جا رہا، جس نے رواں ہفتے بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پیر کو واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے یہ بھی کہا کہ ’نامزد کردہ دہشت گرد تنظیموں کا مسلسل جائزہ لیا جاتا ہے اور نامزدگی کے باوجود امریکی حکام کو ان سے بات چیت سے نہیں روکا جا سکتا۔‘
شام کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’رواں ہفتے کے دوران جو کچھ ہوا، اس سے متعلق کوئی خاص قسم کا جائزہ نہیں لیا جا رہا، ہم اقدامات کی بنیاد پر ہمیشہ جائزوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور پابندیوں کے طریقہ کار میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے تاہم ابھی تک اس بارے میں کچھ نہیں ہو رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر ھیئۃ التحریر الشام جس کو ’ایچ ٹی ایس‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی جانب سے اپنے لیبل کو تبدیل کرنے کے حوالے سے اقدامات سامنے آتے ہیں تو اس کے بارے میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس کا مکمل انحصار اس کے اقدامات پر ہو گا۔
اگرچہ متھیو ملر نے کہا کہ ’ضروری نہیں کہ لیبل تنظیم کے اراکین اور امریکی حکام کو بات چیت سے روکے۔‘ تاہم دہشت گرد قرار دیے جانے کا لیبل اس کا نشانہ بننے والوں پر متعدد پابندیاں عائد کرتا ہے، جن میں ان تنظیموں کو ’مادی امداد‘ کی فراہمی پر پابندی بھی شامل ہے۔
امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مناسبت سے اپنے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے امریکہ کو ایچ ٹی ایس کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘
میتھیو ملر نے افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی طالبان کے ساتھ بات چیت کا حوالہ دیا، تاہم ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا کہ طالبان کو کبھی اس طرح سے نامزد نہیں کیا گیا تھا، بلکہ ’خصوصی طور پر نامزد دہشت گرد تنظیم‘ کے طور پر درج کیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا لیبل ہے جو نسبتاً کم سخت پابندیوں کے ساتھ عمل میں آتا ہے۔
تاہم اس ک باوجود میتھیو ملر نے کہا کہ ’جب یہ ہمارے مفاد میں ہو تو ہم ایک نامزد دہشت گرد تنظیم کے ساتھ بھی بات چیت کر سکتے ہیں۔‘
علاوہ ازیں وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ شام میں تیزی سے تبدیل ہونے والی صورت حال کے حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن اور اردن کے شاہ عبداللہ دوئم کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو ہوئی جس میں موجودہ صورتحال میں داعش کو اس سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کا نکتہ بھی شامل تھا۔