Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں سرکاری اور نجی مفت سولر سکیم، صارفین کے لیے سب سے بہتر کون سی؟

ماہر توانائی علی خضر بتاتے ہیں کہ ‘نجی اور سرکاری پیکیجز میں بظاہر بہتر کا انتخاب کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پنجاب حکومت نے ایک لاکھ صارفین کے لیے مفت سولر سسٹم لگانے کا منصوبہ لانچ کیا ہے جس کے تحت ان گھروں کو سولر سسٹم فراہم کیا جائے گا جہاں بجلی کے ماہانہ 200 سے 500 تک یونٹس استعمال ہوتے ہیں۔
تاہم مارکیٹ میں ایسی کمپنیز بھی موجود ہیں جو صارفین کی آسانی کے لیے مختلف سکیمز کے ساتھ ابتدائی طور پر مفت سولر سسٹم لگا رہی ہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت کی جانب سے مفت سولر سسٹم لگانے اور نجی کمپنیز کی ان سکیمز میں کیا فرق ہے اور صارفین کے لیے ان میں سے بہتر انتخاب کون سا ہو سکتا ہے؟ اس حوالے سے اردو نیوز نے نجی کمپنی کے نمائندوں اور ماہرین سے گفتگو کی ہے۔

پنجاب حکومت کا ’روشن گھرانہ سکیم

پنجاب حکومت نے صوبائی کابینہ کے 11 ویں اجلاس میں ابتدائی طور پر 45 لاکھ گھریلو صارفین کو آسان اقساط پر سولر سسٹم فراہم کرنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔
حکومت پنجاب نے ابتدائی طور پر اس حوالے سے ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو حکومت مفت سولر پینلز لگوا کر دے گی جب کہ 200 سے 500 یونٹس استعمال والے صارفین کو بلا سود قرض فراہم کیا جائے گا جب کہ حکومت 500 یونٹس سے زائد بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو 75 فی صد قرض فراہم کرے گی۔
6 دسمبر 2024 کو پنجاب حکومت نے اس منصوبہ کا باقاعدہ افتتاح کرتے ہوئے ایک لاکھ صارفین کے لیے مفت سولر پینلز لگانے کا آغاز کیا۔
وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز کا ’سی ایم پنجاب فری سولر پینل سکیم‘ کا باقاعدہ افتتاح کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’فری سولر پینل سکیم کا مقصد عوام کو مہنگی بجلی سے مستقل ریلیف فراہم کرنا ہے۔‘
6  دسمبر سے سکیم کے لیے آن لائن اور ایس ایم ایس کے ذریعے درخواستوں کی وصولی کا آغاز ہوا۔
پنجاب حکومت کے بیان کے مطابق صوبائی سیکرٹری انرجی نے سی ایم پنجاب فری سولر پینل سکیم کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’سکیم کے تحت سال بھر میں ایک لاکھ سولر سسٹم لگائے جائیں گے۔‘
بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ ’100 یونٹ ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے 52019 صارفین کو 550 واٹ کا سولر سسٹم مفت فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ 200 یونٹ تک ماہانہ بجلی صرف کرنے والے صارفین کو 1100واٹ کا سولر سسٹم مفت دیا جائے گا۔‘
بریفنگ میں بتایا گیا کہ ’صارفین کے ماہانہ بل پر درج ریفرنس نمبر اور سی این آئی سی نمبر سے ویری فیکیشن کی جائے گی جب کہ سکیم میں شفافیت کے لیے کمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی کی جائے گی۔‘

گجرات کی ایک نجی کمپنی کمرشل صارفین کے لیے مفت سولر سسٹم لگوانے کا منصوبہ گذشتہ کئی برسوں سے پیش کر رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس منصوبے کی دستاویزات کے مطابق صارفین سولر پینلز کی 25 فی صد قیمت ادا کریں گے اور اُن سے کوئی سود نہیں لیا جائے گا۔ یوں سولر پینلز کی اصل قیمت 5 سال میں قسطوں میں ادا کی جائے گی جو بجلی کے بل کی صورت میں بذریعہ اقساط ادا کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے متعلقہ بینکس سولر سسٹم کی ویریفیکیشن کر کے ادائیگی کے لیے پلان طے کریں گے۔

نجی سولر سکیم

پنجاب حکومت کی سکیم سے ملتی جلتی نجی کمپنیوں کی سکیمز مارکیٹ میں پہلے سے موجود ہیں تاہم ان کی قیمتیں سرکاری سطح پر دستیاب سکیمز سے کئی گنا زیادہ ہیں۔
گجرات کی ایک نجی کمپنی کمرشل صارفین کے لیے مفت سولر سسٹم لگوانے کا منصوبہ گذشتہ کئی برسوں سے پیش کر رہی ہے۔
جناح سپر مارکیٹ گجرات میں قائم اس کمپنی کے نمائندے کے مطابق کمپنی نے گھریلو صارفین کو مفت سولر پینلز دینے کا منصوبہ ختم کر دیا ہے جب کہ اب صرف کمرشل صارفین کو ہی اس سکیم کے لیے اہل تصور کیا جا رہا ہے۔
کمپنی کے نمائندے نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’فیکٹری، انڈسٹری یا مل میں سولر سسٹم لگایا جاتا ہے جب کہ گھریلو صارفین کے لیے سکیم ختم کر دی گئی ہے۔ گھر کی بجلی سستی ہوتی ہے جب کہ کمرشل بجلی مہنگی ہوتی ہے اس لیے ہم کمرشل سیکٹر کو دیکھ رہے ہیں۔‘
نجی کمپنی کی سکیم کے مطابق کمپنی ابتدائی طور پر کم از کم 15 کلو واٹ تک کا سولر سسٹم لگاتی ہے جب کہ زیادہ سے زیادہ صارف پر منحصر ہے۔
کمپنی کے نمائندے کے بقول یہ سکیم دو برسوں کے لیے ہے جس میں سب سے پہلے آپ گزشتہ دو ماہ کے بلز ایڈوانس کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد 2 برسوں تک سسٹم سے جتنی بجلی پیدا ہوتی ہے اس کے مطابق آپ کمپنی کو ادائیگی کریں گے۔ ہم 2 برسوں تک 80 روپے فی یونٹ کے حساب سے رقم کی وصولی کرتے ہیں اس کے بعد صارفین سولر سسٹم کے مالک بن جاتے ہیں۔‘

صارفین کے لیے کون سی سکیم بہتر ہے؟

بظاہر مختلف نجی کمپنیز کی جانب سے چھوٹے گھرانوں کو یہ سکیم نہیں دی جا رہی جب کہ حکومتی سطح پر جس سکیم کا اعلان ہوا ہے وہ کم یونٹ صرف کرنے والے گھریلوں صارفین کے لیے ہے۔
سرکاری سکیم میں ادائیگی پانچ برسوں کے دوران کی جائے گی جب کہ نجی کمپنی کی جانب سے فراہم کی جانے والی سکیم کا دورانیہ دو سال ہے تاہم ان کمپنیز کی فی یونٹ قیمت بھی زیادہ ہے۔ اس حوالے سے ماہر توانائی اعجاز احمد صدیقی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سولر سسٹم لگوانے کے لیے تین قسم کے طریقے موجود ہیں۔ ایک تو آپ خود سولر لگاتے ہیں جب کہ دوسرا بینک فنانسنگ اور تیسرا پی پی اے (پاور پرچیز ایگریمنٹ) کے ذریعے سولر لگوایا جاتا ہے۔ اپنے طور پر سولر لگانے کے لیے ایک یونٹ پانچ روپے کا پڑتا ہے۔ حکومت کی گرین فنانس سکیم کے تحت آپ کو 6 فی صد شرح سود پر قرضہ مل جاتا ہے جس کے تحت آپ کو 7 روپے فی یونٹ پڑتا ہے۔ اسی طرح پی پی اے میں آپ کو یونٹ 30 روپے میں پڑتا ہے۔‘

اعجاز احمد صدیقی  کے مطابق مارکیٹ میں مختلف کمپنیز اچھی پیشکش کے ساتھ سولر سسٹم لگا رہی ہیں۔ (فوٹو: اے اایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’سرکاری سطح پر یونٹ کی قیمت 60 روپے ہے جسے 27 روپے پر لانے کے لیے اقدامات ہو رہے ہیں۔‘
نجی کمپنیز کی جانب سے سولر پینلز لگوانے کے لیے مارکیٹ میں مختلف آفرز موجود ہیں تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سرکاری سکیمز کے مقابلے میں نجی کمپنیوں کی آفرز پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟
اعجاز احمد صدیقی اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’مارکیٹ میں مختلف کمپنیز اچھی پیشکش کے ساتھ سولر سسٹم لگا رہی ہیں۔ اس میں ڈرنے والی کوئی بات تو اس لیے نہیں ہے کہ آپ کے لیے سولر لگوانے میں سرمایہ کاری وہ کمپنی کر رہی ہے اور گراؤنڈ پر ان کا مٹیریل پڑا ہوتا ہے۔ ڈرنا تو سرمایہ کار نے ہے جس کا پورا سسٹم کلائنٹ کی چھت پر لگا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس میں فراڈ کا کوئی ڈر اس لیے نہیں ہوسکتا کہ سرمایہ کار کی جانب سے سٹرکچر لگا دیا جائے گا اور منتخب پیکیج کے تحت کلائنٹ نے اقساط دینا ہوں گی۔‘
ماہر توانائی علی خضر بتاتے ہیں کہ ‘نجی اور سرکاری پیکیجز میں بظاہر بہتر کا انتخاب کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘
اُن کے مطابق، تاہم سرکاری پیکیجز اس لیے بہتر ہوتے ہیں کہ ان میں سبسڈی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ اس لیے صارف کو فائدہ سرکاری سکیم سے زیادہ ہوتا ہے۔ نجی کمپنیز میں اکثر وہ اپنا مال کسی طرح نکالنا چاہتے ہیں کیوں کہ مارکیٹ میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے ان کو نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی لاگت اور منافع نکال کر ہی آپ کو سکیم آفر کریں گے، اس لیے ٹھیک تو دونوں ہیں لیکن صارف کو زیادہ فائدہ سرکاری سکیم سے ہوگا۔‘

شیئر: