Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام میں مذہبی ہم آہنگی کی امید، چرچ میں مسیحی اجتماع

امید ہے اپنی پچھلی زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے اور شام میں ہی زندگی گزاریں گے، مسیحی برادری کے تاثرات۔ فوٹو روئٹرز
شام کے شمال مغربی ساحلی شہر لاذقیہ میں اتوار کو سینٹ جارج یونانی آرتھوڈوکس کیتھیڈرل چرچ میں عبادت کرنے والے مسیحی افراد نے امید ظاہر کی ہے ملک کی نئی قیادت ان کے مذہب کا احترام کرے گی۔
برطانیہ کی نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق چرچ  حکام نے گزشتہ اتوار کو غیر یقینی صورتحال کے باعث مسیحی برادری کو عبادت میں شامل نہ ہونے کی ہدایت دی تھی جب بشار الاسد حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔
لاذقیہ اور ملحقہ علاقے سے  آنے والوں کے باعث سرد صبح کے باوجود گرجا گھر مسیحی برادی سے بھر گیا اور یونانی آرتھوڈوکس چرچ کے  پادری ایتھناسیوس فاہد نے اتوار کو اجتماع کی قیادت کی۔
گزشتہ ہفتے شام سے  بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اس علاقے میں موجود مسیحی برادری دوسرے علاقوں کی طرح مذہبی عبادت میں شریک تھی۔
چرچ کے ذمہ دار نے بتایا ’ ہم گزشتہ اتوار دیگر شامی عوام کی طرح اس تبدیلی سے حیران تھے، ہمیں کئی خدشات لاحق تھے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جنہیں اقلیت کہا جاتا ہے۔‘
ایتھناسیوس فاہد نے بتایا ’اسد حکومت کے دوران ہی بہت سے مسیحی یہاں سے دیگر علاقوں میں نقل مکانی کر گئے تھے لیکن ساحلی علاقے لاذقیہ کا گردو نواح متاثر نہیں ہوا ، یہ علاقہ اسد حکومت کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

لاذقیہ کا علاقہ اسد حکومت کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ فوٹو روئٹرز

گذشتہ دنوں ریاست کے سیکیورٹی، فوجی، سرکاری اور سول اداروں کے خاتمے کی وجہ سے سڑکوں پر ہر جانب افراتفری تھی۔
شام کی آبادی میں تاریخی نسلی اور مذہبی اقلیتیں جن میں مسیحی، آرمینیائی، کرد اور شیعہ مسلمان شامل ہیں جو دیگر شامی مسلمانوں کی طرح 13 سالہ خانہ جنگی کے دوران متعدد خدشات کا شکار تھے۔
چرچ کی پارش کونسل کی سیکرٹری لینا اخراس نے بتایا ہے  گذشتہ دور حکومت میں مسیحی اپنے عقیدے کی آزادی کے لحاظ سے  مطمئن تھے تاہم یہ سب اچانک ہوا تو ہم نے حفاظتی اقدامات کے تحت وقتی طور پر عبادت روک دی۔

گذشتہ دنوں سول اداروں کے خاتمے کے باعث ہر جانب افراتفری تھی۔ فوٹو روئٹرز

کونسل کی سیکرٹری لینا اخراس نے مزید بتایا ’ ہمیں بہت سے یقین دہانیاں ملیں اور ہم نے دیکھا ہے حیات تحریرالشام  کے اراکین نے ہمارے پادری سے رابطہ کیا۔
امید ہے ہم اپنی پچھلی زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے اور اپنے خوبصورت ملک شام میں ہی زندگی گزاریں گے۔’ تمہارا مذہب تمہارے لیے لیکن ہمارا ملک ہم سب کے لیے ہے۔‘

شیئر: