امریکی جنرل کا دورہ اسرائیل، شام سمیت دیگر علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال
اسرائیل نے بشار الاسد کی برطرفی کا خیر مقدم کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹکام) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک اعلیٰ امریکی فوجی افسر نے بدھ سے جمعے تک اسرائیل کا دورہ کیا جس میں اسرائیلی دفاعی حکام سے ملاقاتیں کیں اور دیگر علاقائی مسائل کے علاوہ شام کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سینٹکام نے کہا کہ اس کے کمانڈر آرمی جنرل مائیکل کوریلا نے اسرائیلی دفاعی افواج کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہیلیوی اور اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز سے ملاقات کی۔
واشنگٹن نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ شام میں رونما ہونے والے واقعات پر امریکہ کے ساتھ قریبی مشاورت کرے جہاں کچھ دن پہلے باغیوں نے بشار الاسد خاندان کی 50 سال سے زیادہ کی حکمرانی کا خاتمہ کیا۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ کیا شام کے نئے حکمران اس ملک کو مستحکم کر سکتے ہیں جس میں ایک دہائی سے زیادہ کی خانہ جنگی میں ہزاروں افراد مارے گئے اور مہاجرین کے بحران نے جنم لیا۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کے جیٹ طیاروں نے شام میں سینکڑوں حملے کیے اور اس کے سٹریٹجک ہتھیاروں کے ذخیرے کو تباہ کر دیا۔
اسرائیل کاٹز نے اسرائیلی فوجیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ سردیوں کے دوران کوہ ہرمون پر رہنے کے لیے تیار رہیں، جو دمشق کے قریب ایک سٹریٹجک مقام ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیل شام میں طویل فوجی موجودگی کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
سینٹکام کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’رہنماؤں نے شام میں جاری صورتحال اور دیگر سٹریٹجک اور علاقائی خطرات کے خلاف تیاری کو شامل کرنے کے لیے علاقائی سلامتی کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔‘
سینٹکام نے یہ بھی کہا کہ جنرل مائیکل کوریلا نے حالیہ دنوں میں اردن، شام، عراق اور لبنان کا بھی دورہ کیا۔
اسرائیل نے بشار الاسد کی برطرفی کا خیر مقدم کیا ہے، ، لیکن وہ ان باغی گروپوں کے بارے میں مشتبہ ہے جنہوں نے ان کا تختہ الٹ دیا جن میں سے اکثر کا تعلق اسلام پسند گروپوں سے ہے۔
لبنان میں جنرل مائیکل کوریلا نے بیروت کا دورہ کیا تاکہ پچھلے مہینے جنگ بندی کے تحت اسرائیلی فوجیوں کے انخلا کی نگرانی کی جا سکے جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور دس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے۔
اسرائیل اس کے علاوہ غزہ میں جنگ کر رہا ہے جہاں گذشتہ 14 ماہ کے دوران اس کے فوجی حملوں میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس پر نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات لگے ہیں جن کی وہ تردید کرتا ہے۔