Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام کے معزول صدر بشار الاسد کے قریبی لوگ کون تھے اور اب کہاں ہیں؟

: اے ایف پی)رامی عبدالرحمان کے مطابق کئی سینیئر افسران نے جعلی ناموں سے سفری دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے ہمسایہ ملک لبنان کا رخ کیا (فوٹو
باغیوں کی جانب سے شام کے صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے بعد بہت سے اعلیٰ حکام اور ان کے انٹیلیجنس اور سکیورٹی سروسز کے ارکان غائب ہیں۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ ملک چھوڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جبکہ دیگر اپنے آبائی علاقوں میں چھپ گئے ہیں۔
امریکی نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اسد خاندان نے شام پر حکومت کی، اور ان لوگوں کو قید میں رکھا جنہوں نے ملک کی بدنام زمانہ جیلوں میں ان کے اقتدار پر سوال اٹھانے کی جرات کی۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کو باقاعدگی سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا یا قتل کر دیا جاتا تھا۔
حیات تحریر الشام باغی گروپ کے رہنما نے اس قسم کی زیادتیوں کو انجام دینے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ لیکن بدسلوکی کے ذمہ داروں کو تلاش کرنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
دو لبنانی سکیورٹی حکام اور ایک عدالتی اہلکار کے مطابق حالیہ دنوں میں تقریباً آٹھ ہزار شامی شہری مسناء بارڈر کراسنگ کے ذریعے لبنان میں داخل ہوئے ہیں اور تقریباً پانچ ہزار بیروت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ذریعے دوسرے ملکوں کو چلے گئے۔
تاہم لبنان کے وزیر داخلہ بسام مولوی نے رواں ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ کوئی بھی شامی حکومتی اہلکار قانونی سرحدی گزر گاہ سے لبنان میں داخل نہیں ہوا۔
لیکن رامی عبدالرحمن، جو برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ اس کے باوجود کئی سینیئر افسران نے جعلی ناموں سے سفری دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے ہمسایہ ملک لبنان کا رخ کیا ہے۔
بشارالاسد اور ان کا حلقہ احباب
مغربی تعلیم یافتہ ماہر امراض چشم بشارالاسد نے ابتدائی طور پر لوگوں میں یہ امیدیں پیدا کیں کہ وہ سنہ 2000 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے والد کے برعکس ہوں گے اور سیاسی قیدیوں کو رہا اور آزادی اظہار کی اجازت دیں گے۔
لیکن جب مارچ 2011 میں ان کی حکمرانی کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو انہوں نے اختلاف کو کچلنے کے لیے وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کیے۔ بغاوت خانہ جنگی بن گئی۔ بشار الاسد نے اتحادیوں ایران اور روس کی حمایت سے حزب اختلاف کے زیر قبضہ شہروں میں فوج بھیج دی۔
روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق فرار کے بعد  بشار الاسد ماسکو میں ہیں۔
مہر اسد
بشار الاسد کے چھوٹے بھائی چوتھی آرمرڈ ڈویژن کے کمانڈر تھے جس پر شامی اپوزیشن نے حراستی مراکز چلانے کے علاوہ قتل، تشدد، بھتہ خوری اور منشیات کی سمگلنگ کا الزام لگایا ہے۔ وہ امریکی اور یورپی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ وہ ہفتے کے آخر میں غائب ہو گئے تھے اور رامی عبدالرحمان نے کہا کہ بشار الاسد نے انہیں روس پہنچایا۔

علی مملوک فرانس میں ایک عدالت نے جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی (فوٹو: تسنیم نیوز)

میجر جنرل علی مملوک
علی مملوک، بشار االاسد کے سکیورٹی مشیر اور انٹیلی جنس سروسز کے سابق سربراہ تھے۔ وہ 2012 میں شمالی شہر طرابلس میں ہونے والے دو دھماکوں کے لیے لبنان کو مطلوب ہیں جس میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
علی مملوک فرانس میں اس وقت بھی مطلوب ہیں جہاں ایک عدالت نے انہیں اور دیگر افراد کو جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی۔ رامی عبدالرحمن نے کہا کہ مملوک فرار ہو کر لبنان چلے گئے ہیں۔
بریگیڈیئر جنرل سہیل الحسن
سہیل الحسن 25ویں سپیشل مشن فورسز ڈویژن کے کمانڈر تھے اور بعد میں شامی سپیشل فورسز کے سربراہ بن گئے، جو کہ حلب اور مشرقی مضافات سمیت طویل عرصے سے جاری خانہ جنگی میں حکومت کی کئی میدان جنگ میں فتوحات کی دعوے دار تھیں۔
انہیں روس سے قریبی تعلقات کے لیے جانا جاتا ہے اور روسی صدر ولادیمیر پوتن نے شام کے اپنے ایک دورے کے دوران ان کی تعریف کی تھی۔ الحسن کا ٹھکانہ معلوم نہیں ہے۔

قحطان خلیل کا ٹھکانہ بھی نامعلوم ہے وہ ایئر فورس انٹیلی جنس سروس کے سربراہ تھے (فوٹو: سیرین آبزرور)

میجر جنرل حسام لوکا
جنرل سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ انٹیلی جنس سروس کے سربراہ لوکا عوام میں مشہور نہیں ہیں لیکن انہوں نے حزب اختلاف کے خلاف کریک ڈاؤن میں اہم کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر مرکزی شہر حمص میں جسے شام کی ’بغاوت کا دارالحکومت‘ کہا جاتا ہے۔
ان پر امریکہ اور برطانیہ نے کریک ڈاؤن میں کردار ادا کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے۔
میجر جنرل قحطان خلیل
قحطان خلیل کا ٹھکانہ بھی نامعلوم ہے۔ ایئر فورس انٹیلی جنس سروس کے سربراہ تھے اور انہیں 2012 میں دمشق کے مضافاتی علاقے پر مبینہ طور پر حملے کی قیادت کرنے کے لیے ’درعیا کا قصائی‘ کہا جاتا ہے جس میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

شیئر: