پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن سپین بولدک مشترکہ سرحدی گزرگاہ کو تقریباً ایک ماہ بعد کھول دیا گیا۔
آمدورفت بحال ہونے پر باب دوستی پر دونوں جانب پھنسے ہوئے ہزاروں افراد کا ہجوم لگ گیا ہے۔
مقامی حکام کے مطابق سرحد کھولنےکا فیصلہ پیر کو افغان طالبان کے ساتھ فلیگ میٹنگ میں کیا گیا۔ اجلاس میں چمن کی ضلعی انتظامیہ، پاکستانی فورسز سمیت متعلقہ محکموں کے نمائندوں اور افغان طالبان کے سپین بولدک اور قندھار میں تعینات نمائندوں نے شرکت کی۔
مزید پڑھیں
-
چمن بارڈر پر آمدورفت کے لیے اب ’پاسپورٹ لازمی‘Node ID: 490891
-
طالبان نے چمن سرحد گزرگاہ بند کر دی، ہزاروں افراد پھنس گئےNode ID: 605031
-
افغان طالبان بار بار پاکستان کے ساتھ سرحد کیوں بند کر رہے ہیں؟Node ID: 606471
میٹنگ کے فیصلے کے مطابق سرحد روازنہ پیدل آمدورفت کے لیے روزانہ آٹھ گھنٹے کھلی رہے گی اور دونوں جانب سرحدی علاقوں کے رہائشی کو بغیر ویزے آمدورفت کی اجازت دی جائے گی۔
علاج کے لیے پاکستان آنے کے خواہشمند افغان شہریوں کو بھی رعایت دی جائے گی جبکہ تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے مختص دورانیہ بھی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
چمن میں تعینات پاکستانی کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ رات کے اوقات میں تجارتی سرگرمیوں کے لیے اضافی عملے کی تعیناتی سمیت دیگر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
کابل میں تعینات پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے ٹوئٹر پر سرحد کھولنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ چمن سپین بولدک سرحد سے تجارتی گاڑیوں اور لوگوں کی پیدل آمدروفت شروع ہوگئی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’ہم افغانستان سے آنے والی پھلوں سے لدی گاڑیوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔‘
پاکستانی سفیر نے دونوں اطراف کے متعلقہ حکام پر زور دیا کہ ’وہ لوگوں اور تجارتی گاڑیوں کی ہموار نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کریں۔‘
Chaman-Boldak Gate is now open. Pedestrian & trade vehicles started crossing. We welcome Afghan fruit trucks moving to Pakistan. Urge all concerned on both sides to devote their energies to ensure smooth movement of people & trucks. @ForeignOfficePk @mfa_afghanistan @PakinAfg
— Mansoor Ahmad Khan (@ambmansoorkhan) November 2, 2021
خیال رہے کہ چمن بارڈر پانچ اکتوبر کو افغان طالبان نے رکاوٹیں کھڑی کرکے احتجاجاً بند کر دیا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ افغان شہریوں خصوصاً پاکستان سے ملحقہ سرحدی صوبے قندھار کے رہائشیوں اور افغان مریضوں کو بلا روک ٹوک اور بغیر قانونی دستاویزات کے پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جائے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس معاملے پر اعلیٰ اور نچلی سطح پر کئی بار مذاکرات ہوئے تاہم کامیاب نہ ہوسکے۔
سرحد بند ہونے سے دونوں جانب ہزاروں افراد پھنس گئے تھے جبکہ تجارتی سامان سے لدی گاڑیاں روکے جانے سے تاجروں کو بھی روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا تھا۔
![](/sites/default/files/pictures/November/36481/2021/000_9lg8en.jpg)
چمن کی ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’افغان طالبان سے کئی سطح پر مذاکرات ہوئے جس میں چند شرائط مان لی گئی ہیں۔ پاکستان کو آزادانہ نقل و حرکت پر اعتراض ہے اور اس سے متعلق تحفظات سے آگاہ کیا گیا۔‘
افغان صوبے قندھار کے گورنر کے دفتر سے جاری ہونے ہونے والے ایک بیان کے مطابق صوبہ قندھار کے رہائشیوں کو اور مریضوں کو بغیر ویزے کے صرف افغان شناختی کارڈ ’تذکرہ‘ کی بنیاد پر پاکستان میں داخلے کی اجازت ہوگی جبکہ باقی افغان شہری پاسپورٹ پر آجاسکیں گے۔
بیان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’سرحد تجارتی سرگرمیوں کے لیے 24 گھنٹے کھلی رہے گی۔‘
فلیگ میٹنگ میں شریک چمن چیمبر آف کامرس کے صدر محمد ہاشم نے اردو نیوز کو بتایا کہ اجلاس مثبت اور نتیجہ خیز رہا اور سرحد پر پیدل آمدروفت کے ساتھ باہمی تجارت میں آسانیوں کے لیے اقدامات اٹھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ مریضوں اور سرحدی علاقوں کے تاجروں اور مزدوروں کے پیدل آمدروفت کے لیے الگ اوقات اور آنے جانے والی تجارتی گاڑیوں کے لیے الگ الگ راستے مقرر کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’سرحد کی بندش سے تاجر غیر یقینی کا شکار ہیں۔ اس بار چار ہفتوں تک سرحد بند رہی۔ تاجروں کو کنٹینرز کے کرایے اور مال خراب ہونے سمیت مختلف وجوہات کی بنا پر روزانہ پندرہ کروڑ روپے کا نقصان ہورہا تھا۔ ٹیکس جمع نہ ہونے سے ملکی خزانے کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/November/36496/2021/000_9pq6yr.jpg)