Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بشار الاسد کے بعد دہائیوں سے حکمرانی کرنے والی بعث پارٹی بھی بکھر گئی

سنہ 1963 سے شام پر حکومت کرنے والی عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کو باضابطہ طور پر تحلیل کرنے کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔ (فوٹو: اے پی)
شام میں باغیوں کی جانب سے صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے چند دن بعد، ان کی حکمراں بعث پارٹی نے اعلان کیا کہ وہ اپنی سرگرمیاں روک رہی ہے، یہ چھ دہائیوں سے زائد عرصے سے حکومت کرنے والے سیاسی گروہ کی قسمت میں ایک حیران کن تبدیلی کی علامت ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پارٹی کی قیادت کے بہت سے ارکان روپوش ہو چکے ہیں اور کچھ ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ ایک علامتی اقدام کے طور پر شام کے نئے حکمرانوں نے دمشق میں پارٹی کے سابق صدر دفتر کو ایک مرکز میں تبدیل کر دیا ہے جہاں فوج اور سکیورٹی فورسز کے سابق ارکان اپنے ناموں کا اندراج کرنے اور اپنے ہتھیار حوالے کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔
سنہ 1963 سے شام پر حکومت کرنے والی عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کو باضابطہ طور پر تحلیل کرنے کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔
بہت سے شامی شہریوں بشمول پارٹی کے سابق ارکان کہتے ہیں کہ اس (بعث پارٹی) کی حکمرانی نے دوسرے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچایا اور بدعنوانی کے پھیلاؤ میں مدد کی جس نے جنگ زدہ ملک کو گھٹنوں کے بل گرا دیا۔
64 سالہ محمد حسین علی جو ایندھن فراہم کرنے والی سرکاری کمپنی میں ملازم ہیں اور کئی دہائیوں تک پارٹی کے رکن رہے جسے بعد میں انہوں نے سنہ 2011 میں حکومت مخالف مظاہروں کے آغاز کے بعد چھوڑ دیا تھا، کا کہنا تھا کہ ’پارٹی کو نہ صرف تحلیل کیا جائے بلکہ اسے جہنم میں جانا چاہیے۔‘
انہوں نے کبھی ملک نہیں چھوڑا اور اب کا کہنا ہے کہ بعث پارٹی کی حکمرانی کے خاتمے پر وہ خوش ہیں۔
باغیوں کے حملے کی قیادت کرنے والے گروہ ھیتہ التحریر الشام کے ایک اہلکار نے کہا کہ بعث پارٹی کے ساتھ کیا کرنا ہے اس بارے میں کوئی سرکاری فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’ھیتہ التحریر الشام کے سربراہ احمد الشرع نے کہا ہے کہ گذشتہ دہائیوں کے دوران شامی عوام کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور اشارہ دیا گیا ہے کہ ان میں پارٹی کے ارکان بھی شامل ہیں۔‘

شام میں بعث پارٹی الاسد خاندان سے جڑی ہوئی تھی، جس نے سنہ 1970 میں اقتدار سنبھالا تھا۔ (فوٹو: اے پی)

بعث پارٹی، جس کا مقصد عرب ریاستوں کو ایک قوم کے طور پر متحد کرنا تھا، کی بنیاد دو شامی عرب قوم پرستوں ميشيل عفلق اور صلاح الدين بيطارنے سنہ 1947 میں رکھی تھی اور ایک وقت میں اس کی دو عرب ممالک عراق اور شام پر حکومت تھی۔
لیکن بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد کے ادوار میں بعث پارٹی کی شامی شاخ اور صدام حسین کے ماتحت عراق میں دشمنی پیدا ہو گئی۔
شام میں بعث پارٹی الاسد خاندان سے جڑی ہوئی تھی، جس نے سنہ 1970 میں اقتدار سنبھالا تھا۔ کئی دہائیوں تک اس خاندان نے ملک کو کنٹرول کرنے کے لیے پارٹی اور اس کے عرب قوم پرستی کے نظریے کا استعمال کیا۔
بہت سی اعلٰی فوجی ملازمتیں خاندان کے اقلیتی علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس تھیں، اور پارٹی کی رکنیت کو فرقہ وارانہ نوعیت کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

شیئر: