Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام کے نئے انٹیلیجنس چیف کا سکیورٹی سروسز میں اصلاحات سے تشدد کے خاتمے کا عزم

رواں ماہ کے آغاز پر شام میں بشار الاسد کی دو دہائیوں سے قائم حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔ فوٹو: روئٹرز
شام میں انٹیلیجنس سروس کے نئے سربراہ نے سکیورٹی کے اُن محکموں کے خاتمے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جو بشار الاسد کے دورِ حکومت میں خبر اور خوف کی علامت تھے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق شام کے نئے انٹیلیجنس چیف انس خطاب نے کہا کہ ’سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں تمام محکموں کو تحلیل کرنے اور ان کی اس طرح سے تنظیم نو کے بعد اصلاح کی جائے گی جس سے ہمارے لوگوں کو عزت ملے۔‘
بشار الاسد کی حکومت کو رواں ماہ کے آغاز میں اپوزیشن کے مسلح گروپ نے ختم کر دیا تھا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کے مطابق جاری کردہ ایک بیان میں انہوں نے شامیوں کے مصائب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ’سابق حکومت کے جبر اور استبداد کے لیے، اس کے مختلف حفاظتی آلات کے طور پر استعمال ہونے والوں نے بدعنوانی کا بیج بویا اور لوگوں پر تشدد کیا۔‘
بشار الاسد کے زوال کے بعد شام کی جیلیں خالی کر دی گئیں جبکہ معزول حکومت کے اہلکار اور ایجنٹ ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر تنصیبات اب عبوری حکومت کے مسلح دھڑے حیات تحریر الشام کے جنگجوؤں کی حفاظت میں ہیں۔
بے شمار شامی شہری اپنے اُن رشتے داروں اور دوستوں کی تلاش میں سابق حراستی مراکز پہنچے جو 13 سال کی تباہ کن خانہ جنگی کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے۔ خانہ جنگی کے دوران 15 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔
انس خطاب نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ’سابق حکومت کی سکیورٹی سروسز میں بہت سے محکمے تھے، ان کے مختلف نام تھے مگر ان سب میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ یہ کہ پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ مظلوم لوگوں پر جبر سے مسلط رہے۔‘
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شام کی جیلوں اور حراستی مراکز میں لڑائی کے دوران ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
جمعرات کو سابق حکومت کے ایک جنرل کو ملک کے مغربی علاقے سے گرفتار کیا گیا جس پر الزام ہے کہ وہ بدنام زمانہ صیدنایا جیل میں قید ہزاروں افراد کو سزائے موت سنانے کا ذمہ دار ہے۔
دوسری جانب سنہ 2022 سے یورپ میں شامی انٹیلیجنس کے کئی سابق سینیئر افسران کو شام کے شہریوں پر تشدد اور بدسلوکی کے الزامات میں سزا سنا کر جیل بھیجا گیا۔

شیئر: