Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عید الفطر ، یوم الاجر

عید گاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز ضرور کھانی چاہیے، عید گاہ جانے اور آنے کے راستے الگ الگ ہونے چاہئیں
* * * *محمد آصف اقبال۔ نئی دہلی* * *
مختلف مذاہب کے ماننے والے جو تہوار مناتے ہیں اسکے ذریعہ ایک جانب وہ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو وہیں دوسری جانب ان کے عقائد و افکار اور طور طریق کی عکاسی بھی ہوتی ہے اوریہ تہوار مذہب کا ترجمان بنتے ہیں۔یہ بات قابل غور ہے کہ مختلف قسم کے تہوار کسی نہ کسی مخصوص تاریخی واقعے، شخصیت یا کسی خاص کامیابی کی یاد سے منسلک ہوتے ہیں،پھر یہی وہ تہوار ہیں جنکااگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس کے نتیجہ میں یا تو اس مذ ہب اور اس کی فکرسے قربت قائم کرنے کی خواہش پیداہوتی ہے اور دل مائل ہوتا ہے یا پھر ان طور طریقوں کو دیکھ کر کراہت محسوس ہوتی ہے اور دوری اختیار کرنے کا دل چاہتا ہے۔ اسلام وہ عالمگیر دین ہے جو قیامت تک تمام اقوام کیلئے کامیابی و فلاح کا پیغام دیتا ہے اور اس میںکامیابی و ناکامی اور خوشی و رنج کا دارومدار تقویٰ اور نیکی پر ہے۔
اسلام کے ماننے والوں کیلئے سب سے بڑی خوشی اس بات میں پوشیدہ ہے کہ بندۂ مومن اپنے شب و روز کے جو کام انجام دے رہا ہے اس کے نتیجہ میںوہ اللہ تعالیٰ کامقرب بندہ بن جائے نیز اللہ اور رسولکے احکامات پرعمل کرنا آسان ہوجائے۔اللہ کے رسول کا ارشاد ہے: ’’جب نیکی کرکے تجھے خوشی ہو اور برائی کرنے سے رنج ہو تو، تُومومن ہے۔‘‘ بندۂ مومن ہر کام کرنے سے قبل اور بعد اپنے دل کا جائزہ لیتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ یا تووہ مطمئن ہو جاتا ہے یا پھر توبہ و استغفار کا رویہ اختیارکرتا ہے۔ احادیث کی روشنی میں : سیدناانس بن مالکؓ رویت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ عید الفطر کے دن جب تک چند چھوہارے نہ کھالیتے، عید گاہ کی طرف نہ جاتے اور چھوہارے طاق عدد میں کھاتے(صحیح بخاری)۔ سیدناجابر ؓ نے کہا کہ جب عید کا دن ہوتا تو نبی اکرم واپسی میں راستہ بدل کر جاتے تھے (صحیح بخاری)۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ کے ساتھ عید کے دن نماز کیلئے حاضر ہوا تو آپنے خطبے سے پہلے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھائی ۔ پھربلالؓ پر ٹیک لگائے کھڑے ہو گئے۔
اللہ پر تقویٰ کا حکم دیا اور اس کی اطاعت کی ترغیب دی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی پھر عورتو ں کے پاس جاکر ان کو وعظ و نصیحت کی اور فرمایا : ’’ صدقہ کرو کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن ہیں۔‘‘ عورتوں کے درمیان سے ایک سرخی مائل سیاہ رخساروں والی عورت نے کھڑے ہوکر عرض کیا: کیوں یا رسو ل اللہ ؟ آپ نے فرمایا: ’’کیونکہ تم شکوہ زیادہ کرتی ہو اور شوہرکی ناشکری۔‘‘ حضرت جابر فرماتے ہیں وہ خاتون اپنے زیوروں کو صدقہ کرنا شروع ہو گئیں ، حضرت بلالؓ کے کپڑے میں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔‘‘(صحیح مسلم)۔ ام عطیہؓ سے روایت ہے کہ ہمیں نبی کریمنے حکم دیا کہ ہم کنواری، جوان اور پردے والیاں عیدین کی نماز کیلئے جائیں اور حائضہ عورتوں کوحکم دیا کہ وہ مسلمانوں کی عید گاہ سے دور رہیں(صحیح مسلم)۔ حضرت انس بن مالک ؓ نے اپنے غلام ابن ابی عتبہ کو زاویہ گائوں میں نماز پڑھانے کا حکم دیا تو ابن ابی عتبہ نے حضرت انسؓ کے گھر والوں اور بیٹوں کو جمع کیا اور سب شہر والوں کی تکبیر کی طرح تکبیر اور نماز پڑھی ۔
عکرمہ ؓ نے کہا: "گائوں کے لوگ عید کے روز جمع ہوں اور 2رکعت نماز پڑھیں جس طرح امام پڑھتا ہے۔" عطا رحمہ اللہ نے کہا: "جب کسی کی نمازِ عید فوت ہو جائے تو 2رکعت نماز ادا کرلے۔"(صحیح بخاری)۔ عروہ بن زبیر ، حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ’’جس وقت میرے والد ابو بکر ؓ میرے گھر آئے تو اس وقت میرے پاس انصار کی 2لڑکیاں جنگ بعاث کے دن کا شعر گا رہی تھیں اور ان لڑکیوں کا پیشہ گانے کا نہیں تھا، تو ابو بکرؓ نے فرمایا کہ یہ شیطانی باجہ اور رسول اللہ کے گھر میں؟ اور وہ عید کا دن تھا، یہ سن کررسول اللہ نے فرمایا : اے ابو بکرؓ ! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہم لوگوں کی عید ہے۔‘‘(صحیح بخاری)۔ صحیح مسلم میں اتنا اضافہ اور ہے کہ آپنے فرمایا : ’’ ہر قوم کیلئے عید ہوتی ہے اور یہ ہماری خوشی کا دن ہے۔‘‘ درج بالا احادیث سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں :
٭ عید گاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز ضرور کھانی چاہیے بہتر ہوگا کہ کھجور یا چھوہارے ہوں۔
٭ عید کے دن عید گاہ جانے اور آنے کے راستے الگ الگ ہونے چاہئیں اس بنا پر کہ کہ وہاں کے رہنے والے انسان اور جنات اور فرشتے طاعات و نیکیوں پر گواہ بن جائیں یا اس بنا پر کہ دونوں راستوں کے رہنے والوں کو برکتیں حاصل ہوں یا اس بناپر کہ دونوں راستوں میں شعائر اسلام کا اظہار ہو، وغیرہ۔
٭ عید کی نماز کے بعد امام تقویٰ اور نیکی کی ترغیب دلائے اور مقتدی اس کو بغور سنیں اور اس پر عمل کرنے کی سعی کریں۔
٭ اگر عید کے دن نماز فوت ہوجائے تو چاہیے کہ 2 رکعت نماز پڑھ لی جائے، یہی مناسب طریقہ ہے۔ ٭ عیدین کی نماز میں عورتیں بھی شامل ہوں اور ان کی نماز کا الگ اہتمام کیا جاے نیزعورتیں اُن باتوں کا پاس و لحاظ رکھیں جو اسلام کو مقصود ہیں۔
٭ عید کے دن خوشی کا اظہار ہونا چاہیے اور اس کیلئے جائز طریقوں کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔یہ تمام کام اس لئے اختیار کیے جائیں کہ آج کا دن ہمارا عید کا دن ہے اور عید خوشی کا دن ہے ۔پھر یہی وہ طریقہ ہے جس کو اختیار کرنے سے اللہ اور اس کا رسول بھی خوش ہوتے ہیں۔ اجر و مغفرت کااعلانِ عام: عید الفطرکا دن مومنین کو پورے ایک ماہ رمضان المبارک کی عبادات کے بعد نصیب ہوتا ہے۔رمضان المبارک میں وہ اپنے آپ کو ظاہر ی اور باطنی طور پر پاک کرتے اور اللہ کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں،اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان بندوں سے راضی ہوتا ہے۔صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے اورسیدنا معدؓ بن اوس انصاری اپنے والد حضرت اویسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے ارشاد فرمایا : ’’جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ کے فرشتے تمام راستوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے مسلمانو! رب کے پاس چلو جو بڑا کریم ہے ،نیکی اور بھلائی کی راہ بتاتا اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے اور اس پر بہت انعام سے نوازتا ہے، تمہیں اس کی طرف سے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کی اطاعت گزاری کی ،تمہیں اس کی طرف سے تراویح پڑھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے تراویح پڑھی سو اب چلو اپنا انعام لو اور جب لوگ عید کی نماز پڑھ لیتے ہیں تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے:اے لوگو! تمہارے رب نے تمہاری بخشش فرمادی پس تم اپنے گھروں کو کامیاب و کامران لوٹو یہ عید کا دن انعام کا دن ہے۔‘‘
اس اجر و انعام اور رحمت و مغفرت کے تعلق سے یہ اضافہ بھی ملتا ہے کہ: ’’جب لوگ عید گاہ میں آجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: جن مزدور وں نے اپنا پورا کام کیا ہو اس کی مزدوری کیا ہے! فرشتے عرض کرتے ہیں اس کی مزدوری یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے، تب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ جن لوگوں نے روزے رکھے اور نمازیں پڑھیں ان کے عوض میں، میں نے انہیں مغفرت سے نوازدیا۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا کرم ہے کہ وہ ہمیں دنیا میں بھی خوشیاں مہیا کراتا ہے ان اعمال کے بدلہ جو دنیا میں ہم نے کئے ہیں اور آخرت کا اجر تو اجرِ عظیم ہوگا۔ ہم نے رمضان میں روزے رکھے اور عبادات انجام دیںجس کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر دیر کئے ہی ہمیں ہماری مزدوری کی اجرت دے دی۔یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور اسی طریقہ کو مسلمانوں کو بھی اختیارکرنا چاہیے۔
بے انتہا خوشیاںاور مسرتوں سے بھرپور عید سعید خصوصاًامت مسلمہ اور تمام ہی انسانیت کے علمبرداروں کو مبارک باد کا پیغام پیش کرتی ہے۔اچھا ہوگا کہ یہ عید انسانوں کیلئے خیر و برکت کا ذریعہ بن جائے اور انسانوں کی انسانوں سے جو دوریاں پیدا ہو رہی ہیں ان میں کمی واقع کردے ، یہی ہماری خواہش اور یہی ہماری دعا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری عبادات کو قبول فرمائے اور دنیا اور آخرت میں متقیوں کا امام بنائے،آمین ۔
اس عید سعید کے موقع پر ہمیں اپنے ان اسلام پسند بھائیوں کو بھی نہیں بھلانا چاہیے جو آج تنگ دستی اور تشدد کا شکار ہیں۔ ان میں بطور خاص مصر و شام کے مظلوم مسلمان ہیں تو وہیں فلسطین،عراق،افغانستان،بنگلہ دیش اور یگر وہ ممالک جہاں مسلمانوں پر صرف اس بنا پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں،جو اپنی بقا اور وجود کی جدو جہد کررہے ہیں یا اسلامی تشخص کے فروغ میں مصروف ِعمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کا حامی و مدد گار ہواور ان کو دنیا ہی میں وہ کامیابی عطا کر دے جس کے بعد ان کا ہر غم ہلکا ہوجائے اور چہار سو امن و امان اور سکو ن میسر آجائے۔ ساتھ ہی ملت اسلامیہ کے وہ تمام لوگ جو کہیں بھی اور کسی بھی ملک میں اللہ کے دین کے قیام کی جدو جہد میں مصروفِ عمل ہیں اور باطل قوتیں ان کی سرکوبی میں لگی ہوئی ہیں۔
ایسے تمام لوگوں کیلئے بھی ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی سعی و جہد کو قبول فرمائے ، ان کے درجات دنیا و آخرت میں بلند کردے اور وہ فتح نصیب کرے جس کا وعدہ اُس نے اپنے نیک بندوں سے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ وقت جلد آئے جبکہ اسلام کو غلبہ عطا ہو اور اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کی جائے۔ }اللہ اکبر،اللہ اکبر،لا الہ الا اللہ واللہ اکبر،اللہ اکبروللہ الحمد{۔

شیئر: