Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری جنہوں نے گیت نگاری کو نیا آہنگ دیا

حفیظ جالندھری کی تدفین مینارِ پاکستان کے سائے تلے کی گئی۔ (فوٹو: ٹرپ ایڈوائزر)
ملکہ پکھراج کی سحرانگیز آواز میں یہ گیت ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ یا پھر جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ کی آواز میں یہ غزل ’ہم میں ہی تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے‘ تو آپ نے ضرور سن رکھی ہو گی مگر کیا آپ ان کے شاعر کے بارے میں جانتے ہیں؟ نہیں جانتے تو جان لیجیے کہ یہ ابواَلاثر حفیظ جالندھری کی تخلیق ہیں جنہیں ہم قومی ترانے کے خالق کے طور پر جانتے ہیں اور اس سے زیادہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔
’شاہنامۂ اسلام‘ کو تو ایک جانب رکھیے، حفیظ کے گیتوں میں موجود رچاؤ ہی اُن کو اپنے عہد کے شعرا میں ممتاز بنانے کے لیے کافی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ حفیظ موسیقی کے رموز سے واقف ہی نہیں تھے۔ بلکہ ترنم سے اپنی غزلیں اور نظمیں سنا کر مشاعرے لوٹ لیا کرتے تھے۔
معروف نقاد خواجہ ذکریا اپنے ایک کالم میں ذکر کرتے ہیں کہ ’سال 1957 میں لائل پور (فیصل آباد) میں ایک بڑا انڈو پاک مشاعرہ ہوا۔ میں جھنگ سے لائل پور گیا۔ رات بھر مشاعرہ جاری رہا اور فجر کی اذان سے ذرا پہلے آخری شاعر یعنی حفیظ جالندھری نے اپنا کلام سنایا۔ وہ جوں ہی مائیک کے سامنے آئے سینکڑوں سامعین نے ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ اور ’رقاصہ‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ حفیظ نے سامعین سے مخاطب ہو کر کہا، ’میں ان سے زیادہ معیاری نظمیں سنا سکتا ہوں‘ لیکن سامعین کے نعرے بالآخر غالب آ گئے۔ افق مشرق سے صبحِ صادق طلوع ہو رہی تھی اور کالی کالی بدلیاں اٹھ رہی تھیں۔ ’وہ کالی کالی بدلیاں۔۔۔ افق سے ہو گئی عیاں‘ غرض نظم اتنی برموقع تھی کہ بہت لطف آیا۔
’رقاصہ‘ کا ذکر ہوا تو ذرا اس میں موجود موسیقیت اور رچاؤ محسوس کیجیے؛
اُٹھی ہے مغرب سے گھٹا
پینے کا موسم آ گیا
ہے رقص میں اک مہ لقا
نازک ادا ناز آفریں
ہاں ناچتی جا گائے جا
نظروں سے دل برمائے جا
تڑپائے جا تڑپائے جا
یہ تو کچھ شعر ہیں، پوری نظم تو قاری کو اپنی گرفت میں کچھ یوں لے لیتی ہے کہ وہ بے اختیار سر دھننے لگتا ہے۔ تو یہ تھے حفیظ جالندھری جنہیں قومی ترانے کے خالق تک محدود کرکے اُن کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اُردو ادب کے ساتھ بھی زیادتی کی گئی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اُن کی شخصیت کے گرد تقدس کا ایسا ہالہ قائم کر دیا گیا ہے، جس سے پرے کبھی دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
یہ نہیں ہے کہ حفیظ سے قبل اُردو ادب میں گیت نگاری کی روایت موجود نہیں تھی بلکہ اس کی ابتدا تو دکنی زمانے میں ہی ہو گئی تھی مگر یہ کچھ اس قسم کے تھے کہ شاید ان کو گیت کہنا مناسب نہ ہو۔ آنے والے برسوں میں جب فلموں اور کھیلوں کے لیے گیت لکھے گئے تو اس عہد میں امانت لکھنوی کا نام نمایاں ہے جن کے گیتوں میں وہ رچاؤ اور موسیقیت موجود تھی جو ایک گیت کے لیے ضروری خیال کی جاتی ہے مگر اُن کے گیتوں کی زبان نامانوس سی تھی۔ یہ حفیظ تھے جنہوں نے عام فہم زبان میں ایسے گیت لکھے جو ناصرف گیت کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں بلکہ ان کی زبان میں مقامی لب و لہجہ نمایاں تھا، مثال دیکھیے؛
ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنم ہزار ہے
بہار پر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
ادھر تو لوٹ ادھر تو آ
ان کچھ شعروں سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ جالندھر میں آج ہی کے روز 14 جنوری 1900 کو پیدا ہونے والے محمد حفیظ، اس لیے ابوالاَثر حفیظ جالندھری نہیں بن گئے کہ انہوں نے قومی ترانہ لکھا بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ وہ بڑے شاعر تھے جو اُن کا قومی ترانہ سینکڑوں موصول ہونے والے قومی ترانوں میں سے منتخب کیا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ حلقے حفیظ کو صرف اس لیے نظرانداز کر دیتے ہیں کہ انہوں نے ’قومی ترانہ‘ لکھا اور کچھ اِس لیے کہ وہ ’قومی ترانے‘ سے ہٹ کر حفیظ کو بطور ایک شاعر، ایک انسان کے جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔

حفیظ جالندھری (دائیں) لیاقت علی خان اور قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ۔ (فوٹو: فلِکر)

گوپال متل تقسیم سے قبل کے لاہور میں اُردو ادب کے منظرنامے میں متحرک رہے۔ اُن کی کتاب ’لاہور کا جو ذکر کیا‘ اُن کی یادداشتوں پر مبنی ہے جس میں وہ دوسری جنگِ عظیم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’جنگ کے طفیل ادیبوں اور شاعروں کے لیے روزگار کے دروازے کھُل گئے۔ فیض احمد فیض، چراغ حسن حسرت اور دوسرے کئی ادیب فوج میں ملازم ہو گئے۔ آل انڈیا ریڈیو میں بہت سے ادیبوں کو پہلے ہی ملازمت مل چکی تھی۔ اب جو باقی تھے وہ بھی اس میں کھپ گئے۔ باقاعدہ تعلیم کی کمی حفیظ کے لیے سدِراہ تھی لیکن انہوں نے اپنی تگ و دو سے اس مشکل پر قابو پا لیا۔ حکومتِ ہند نے سانگ پبلسٹی کے نام سے شاعری اور موسیقی کے ذریعے جنگی پرچار کا محکمہ قائم کیا تو اس کی ڈائریکٹری انہی کے حصے میں آئی۔
’یہ محکمہ مشاعرے بھی کراتا تھا اور گانے والیوں کے لیے شاعروں سے جنگ کی حمایت میں گیت بھی لکھواتا تھا۔ اس تقرر سے پہلے اکثر و بیشتر شاعر حفیظ کے خلاف تھے جس میں ان کے مزاج کی کسی خامی سے کہیں زیادہ ان کی غیرمعمولی مالی کامیابی کو دخل تھا، لیکن جیسے ہی وہ سانگ پبلسٹی کے ڈائریکٹر بنے، شاعروں کو ان کی ذات اور ان کے کلام میں ہر قسم کے محاسن نظر آنے لگے۔
گوپال متل کے اس بیان سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ تقسیم سے بہت پہلے ہی حفیظ ایک شاعر کے طور پر کامیاب ہو چکے تھے۔
شاہد احمد دہلوی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ایک علمی خانوادے سے تعلق۔ دادا ڈپٹی نذیر احمد۔ اُن کے اپنے ہم عصر ادبی شخصیات پر لکھے خاکے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’ہندوستان کے جتنے سر برآورد حضرات تھے سب کو انگریز نے خطابات سے نواز دیا تھا۔ اسی پالیسی کے تحت انہوں نے ڈاکٹر اقبال کو ’سر‘ کا خطاب دیا تھا اور مصور چغتائی کو ’خان بہادر‘ کا مگر حفیظ صاحب کو صرف ’خان صاحب‘۔ حفیظ صاحب اس کم نظری پر افسردہ اور برہم تھے اور برہمی یوں اور بھی بڑھی کہ ’خان صاحب‘ عموماً كلاونتوں اور ڈوم ڈھاڑیوں کو کہتے ہیں۔ ترنم سے پڑھنے کی وجہ سے ’خان صاحب‘ کا خطاب ان پر چپک کر رہ گیا اور ان کے مخالفین اور بے تکلف دوست انہیں یہ کہہ کر چھیڑنے لگے کہ حکومت نے تمہاری صحیح قدردانی کی ہے۔

حفیظ جالندھری موسیقی کے رموز سے واقف ہی نہیں تھے بلکہ ترنم سے اپنی غزلیں اور نظمیں سنا کر مشاعرے لوٹ لیا کرتے تھے۔ (فوٹو: فلِکر راشد اشرف)

شاہد احمد دہلوی کے مطابق ’یہ خطاب حفیظ صاحب کے لیے سانپ کے منہ کی چھچھوندر بن گیا کہ نگلے تو اندھا اور اگلے تو کوڑھی۔ یاد رہے آگے چل کر جب انہیں ’خان بہادر‘ کا خطاب ملا تو ان کی کسی قدر اشک شوئی ہوئی۔ مگر اب ان کی شہرت اور خدمات کی وہ نوبت آ چکی تھی کہ انہیں ’سر‘ کا خطاب ملنا چاہیے تھا۔
حفیظ نچلے متوسط طبقے کے ایک خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے مالی حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ رسمی تعلیم حاصل کر پاتے۔ اس لیے کچھ ہی جماعتیں سکول گئے ہوں گے کہ تعلیمی سلسلہ موقوف ہوا اور غمِ روزگار نے آ لیا۔ شاعری میں رغبت تھی تو کسی اور کام میں جی لگتا تو کیسے۔ انہوں نے اس زمانے میں کاروبار بھی کیا، نقصان ہوا تو جالندھر سے لاہور آ گئے۔ شاعری کے علاوہ کوئی کام آتا نہیں تھا، اور مترنم ایسے کہ سامعین اَش اَش کر اٹھتے۔
شاہد احمد دہلوی لکھتے ہیں کہ ’انہوں (حفیظ) نے اُردو شاعری کو ایک نئی صنف دی، اور یہ صنف تھی گیت کی۔ حفیظ کی نقالی میں ہندوستان کے ہر گوشے سے گیت لکھے جانے لگے۔ گیت کی ہیئت کے عجیب و غریب تجربے کیے جانے لگے۔ صورت یہ ہوگئی کہ ’پیمانہ‘ یا کسی ایسے ہی رسالے کو اُٹھا کر دیکھتے تو آپ کو اکثر صفحوں پر Snakes And Ladders (سانپ اور سیڑھیاں) بنی ہوئی دکھائی دیتیں۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ خیر سے یہ گیت ہیں، جن کی یہ ہیئت کذائی ہو گئی ہے مگر حفیظ صاحب ہمیں بڑے خوبصورت گیت اور بڑی حسین نظمیں دیتے رہے۔ انہوں نے گیت کے وقار کو قائم رکھا۔
یہ تھے جالندھر کے حفیظ۔ اُردو میں گیت نگاری کی روایت کے پارکھ۔
سنہ 1929 میں ’شاہنامۂ اسلام‘ کی پہلی جلد شائع ہوئی۔ اُس وقت حفیظ صرف 29 برس کے تھے۔ اپنی شہرت کے عروج پر۔ اسے بھی غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی جس کے باعث حفیظ کے ہم عصر شعرا کے اُن سے حسد کرنے کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے۔ کچھ تو اس کتاب کے نام پر اعتراض کرتے ہوئے ازراہِ تفنن یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ ’اسلام کا شاہوں سے کیا تعلق ہے؟‘ یہ اعتراض بے جا اس لیے ہے کہ اس کتاب کا اسلام کے بادشاہوں کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا آغاز عرب کی ابتدائی تاریخ سے ہوتا ہے اور یہ غزوہ احزاب پر ختم ہو جاتی ہے۔

سنہ 1929 میں ’شاہنامۂ اسلام‘ کی پہلی جلد شائع ہوئی۔ (فوٹو: بک کارنر)

کہا جاتا ہے کہ حفیظ اس کو خطبہ حجتہ الوداع تک لے جانا چاہتے تھے جو ممکن نہ ہو سکا۔ یہ مثنوی تقریباً آٹھ ہزار اشعار اور چار جلدوں پر مشتمل ہے جس میں حفیظ اپنے فن کی معراج پر نظر آتے ہیں۔
’شاہنامۂ اسلام‘ کی دوسری جلد میں شامل اپنے مضمون میں جسٹس سر عبدالقادر (پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ منظور قادر کے والد اور انجمنِ حمایت اسلام کے بانی صدر) لکھتے ہیں کہ ’کامیابی کئی طرح کی ہوتی ہے۔ ’شاہنامۂ اسلام‘ کو خدا نے ہر طرح سے کامیابی دی۔ کتاب اگر مقبول ہو اور بکثرت اشاعت پائے تو یہ اس کی پہلی اور سب سے بڑی فتح ہے۔ اس کتاب کی پہلی جلد جتنی چھپی تھی ایک سال کے اندر فروخت ہو گئی اور دوسری اشاعت کی نوبت آئی۔ اس کی خوبی کا دوسرا ثبوت یہ ملا کہ قرونِ اولیٰ کے رہبرانِ اسلام کے کارناموں کو نظم کا لباس پہنانے کی جو طرز حضرت حفیظ نے اختیار کی تھی۔ اس کی تقلید جابجا ہونے لگی اور کئی اور لکھنے والوں نے اسی طرز پر اسلامی نظمیں شائع کیں۔
مثنوی نگاری حفیظ کے لیے ایک نیا تجربہ تھا جس میں وہ ناصرف کامیاب رہے بلکہ انہوں نے منظوم انداز میں اسلامی تاریخ کو کچھ اس عمدگی سے بیاں کیا ہے کہ اُن کو اس پر فردوسی اسلام کا خطاب بھی ملا۔
حفیظ اگر گیت نگاری میں یکتا تھے تو نظم اور غزل گوئی میں انہوں نے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی۔ افسانے بھی لکھے اور بچوں کے لیے نظمیں بھی۔  ’چیونٹی نامہ‘ اپنی نوعیت کی ایک دلچسپ اور معلوماتی کتاب ہے تو یوں حفیظ مختلف تجربات کرتے رہے اور کامیاب رہے۔
یہ تعین کرنا مشکل ہوگا کہ حفیظ بڑے گیت نگار تھے، غزل گو یا نظم کے شاعر۔ یہ بہرحال یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ قومی ترانہ نہ بھی لکھتے تو ایک بڑے شاعر کے طور پر ضرور اُن کا ذکر کیا جاتا۔ اور وہ صرف قومی ترانے کے خالق ہی ہوتے تو یہ اعزاز بھی کم نہ تھا۔
حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982 کو لاہور میں چل بسے۔ اُن کی تدفین مینارِ پاکستان کے سائے تلے کی گئی اور یہ وہ اعزاز ہے جو کسی اور شاعر یا ادیب کے حصے میں نہیں آیا۔

یہ تعین کرنا مشکل ہوگا کہ حفیظ بڑے گیت نگار تھے، غزل گو یا نظم کے شاعر۔ (فوٹو: فلِکر راشد اشرف)

دلچسپ بات یہ ہے کہ حفیظ نے کرشن کنھیا کے نام سے بھی ایک نظم لکھی تھی جس میں انہوں نے ہندو بھگوان کرشن کی تعریف کی تھی۔ یہ ذکر کرنا اس لیے ازبس ضروری تھا کہ حفیظ ایک آفاقی شاعر تھے، اُن کی اس نظم کے کچھ شعر دیکھیے؛
اے دیکھنے والو
اس حسن کو دیکھو
اس راز کو سمجھو
یہ نقش خیالی
یہ فکرت عالی
یہ پیکر تنویر
یہ کرشن کی تصویر
آخر میں حفیظ کے کچھ شعر پیشِ خدمت ہیں جن میں آپ کو وہ نغمگی اور رچاؤ محسوس ہو گا جو صرف حفیظ کا ہی خاصا تھا؛
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے یا رَب کہ مجھے
ہر بُری بات بُری بات نظر آتی ہے

 

شیئر: