انڈین یونیورسٹی میں سعودی عرب سے متعلق خصوصی کورس میں طلبہ کی دلچسپی
جمعرات 23 جنوری 2025 17:13
سعودی عرب اور انڈیا کے تعلقات گزشتہ تین دہائیوں میں کافی تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔ فوٹو: عرب نیوز
سعودی عرب کے ٹرانسفارمیشن پروگرامز اور ویژن 2023 میں انڈین طلبہ کی دلچسپی بڑھ رہی ہے اور رواں ہفتے اس موضوع پر ملک کی معروف درسگاہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ایک خصوصی کورس پڑھایا جا رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ پانچ روزہ کورس وزارت تعلیم کے تعاون سے دہلی کی جواہر لعل یونیورسٹی میں جمعے تک پڑھایا جائے گا۔ اور اس کا مقصد انڈیا کی حکومت کے اکیڈمک نیٹ ورک پروگرام کے گلوبل انیشیٹیو کے تحت دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں کے فیکلٹی ممبرز اور سائنسدانوں کے ساتھ تبادلہ خیالات کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
یہ خصوصی کورس ریاض کے کنگ فیصل سینٹر برائے ریسرچ و اسلامی سٹڈیز میں سینیئر فیلو پروفیسر جوزف البرٹ کیچیچیان پڑھا رہے ہیں۔
پروفیسر جوزف البرٹ کیچیچیان مغربی ایشیائی سیاست اور فارن پالیسی میں تخصص رکھتے ہیں اور گلف ریجن کے معاملات پر عبور رکھتے ہیں۔
جواہر لعل یونیورسٹی میں سینٹر فار مغربی ایشیا کی پروفیسر ثمینہ حمید نے کہا ہے کہ ان سیشنز میں انڈیا کی مختلف ریاستوں سے طلبہ نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔
پروفیسر ثمینہ حمید اس خصوصی کورس کی کوآرڈینیٹر ہیں۔
ثمینہ حمید نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’یہ ایک بہت ہی عمدہ کورس ہے جو ایک ملک اور ایک مخصوص علاقے پر مرکوز ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نے بھرپور توجہ حاصل کی ہے۔‘
ثمینہ حمید نے مزید کہا کہ رجسٹرڈ شرکاء کی تعداد 50 طلبہ کی ابتدائی توقع سے دو گنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے اب بھی طلبہ کی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں، کیرالہ اور جنوب کی دیگر ریاستوں سے بھی، تو اس کا مطلب ہے کہ اس قسم کے مضامین اس لیے توجہ حاصل کر رہے ہیں کیونکہ یہ خطے میں انڈیا کی بڑھتی ہوئی دوطرفہ دلچسپی اور تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں۔‘
سعودی عرب اور انڈیا کے تعلقات گزشتہ تین دہائیوں میں کافی تیزی سے آگے بڑھے ہیں اور یہ سنہ 2019 میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے نئی دہلی کے دورے سے نئی بلندیوں پر پہنچے۔
اس دورے میں انڈیا اور سعودی عرب نے سٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل تشکیل دی۔
دونوں ملکوں کے تعلقات سنہ 2023 میں مزید بڑھے جب جب سعودی عرب نے جی 20 ملکوں کے اجلاس کی سربراہی کی اور اس کے بعد اس فورم کی صدارت انڈیا کو ملی۔
پروفیسر جوزف البرٹ کے مطابق ’درحقیقت یہ اس امر کا اظہار ہے کہ دونوں اطراف بزنس لیڈرز کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ انٹرپرینیورشپ کی طرف آئیں جس سے دونوں ملکوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔‘