Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان: مطلوب کمانڈرز سمیت کالعدم تنظیموں کے چار ارکان نے ہتھیار ڈال دیے

جمعرات کو ہونے والی اس پریس کانفرنس میں میڈیا کے چند نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
بلوچستان میں حکومت کو مطلوب دو اہم اور سینیئر کمانڈرز سمیت ہتھیار ڈالنے والے کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں کے چار ارکان کو کوئٹہ میں میڈیا کے سامنے پیش کر دیا گیا۔
ہتھیار ڈالنے والے کمانڈرز کا کہنا تھا کہ وہ غیرملکی ایجنسیوں کی بلوچ مسلح تنظیموں میں مداخلت اور مسلح تنظیموں کی قیادت کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے مسلح تحریک چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہوئے۔
سول سیکریٹریٹ کوئٹہ میں صوبائی وزیرترقی و منصوبہ بندی ظہور احمد بلیدی، پارلیمانی سیکریٹری برائے کھیل مینا مجید، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان اعتزاز احمد گورائیہ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی( بی آر اے) کے کمانڈر نجیب اللہ عرف استاد درویش عرف استاد آدم، کالعدم بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے کمانڈر عبدالرشید عرف خدائے داد عرف کماش نے قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان کیا۔
جمعرات کو ہونے والی اس پریس کانفرنس میں میڈیا کے چند نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا اور اسے ایک دن بعد (جمعے کو) سرکاری ٹی وی پر نشر کیا گیا۔
کالعدم بی آر اے کے سابق کمانڈر نجیب اللہ کا کہنا تھا کہ وہ مکران ڈویژن کے اہم کمانڈرز میں سے ایک تھے، ان کا علیحدگی پسند رہنماؤں براہمداغ بگٹی، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، بشیر زیب اور گلزار امام شمبے سے قریبی رابطہ رہا۔  
ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے نواب بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی کی جماعت بلوچ ری پبلکن پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن بنے اور بعدازاں مسلح تنظیم بلوچ ری پبلکن آرمی کا حصہ بن کر مسلح کارروائیاں شروع کیں۔
نجیب اللہ کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی کے اہم ترین 19 برس مسلح تنظیم کی نذر کیے اور ان کا اصل روپ دیکھنے کے بعد خود کو ریاست پاکستان کے سپرد کیا ہے۔ ’پہاڑوں پر لڑنے والے بیرونی قوتوں اور مسلح تنظیموں کے لیڈران کے ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچ علیحدگی پسند رہنما خود غیرممالک میں بیٹھ کر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے بچے بیرون ملک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ پہاڑوں پر لڑنے والوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔‘
’تنظیموں میں لوگ اندرونی سازشوں کا شکار ہورہے ہیں اور گینگ وار کی طرز پر ان کو مارا جا رہا ہے۔ کئی سینیئر ارکان کو خود تنظیم کے لیڈرز نے مارا۔‘

نجیب اللہ کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی کے اہم ترین 19 برس مسلح تنظیم کی نذر کیے (فوٹو: ویڈیو گریب)

اس موقعے پر بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے مکران ڈویژن کے کمانڈرعبدالرشید عرف قماش عرف خدائے داد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق کیچ کے علاقے بلیدہ زامران سے ہے اور وہ 2009 میں کالعدم مسلح تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ میں شامل ہوئے۔ اس کے بعد بی آر اے اور پھر بلوچ نیشنلسٹ آرمی کا حصہ بنے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی ذہن سازی بی ایل ایف کے کمانڈر عابد زعمرانی عرف بشام نے کی۔ اس دوران ان کا گلزار امام عرف شمبے، نجیب اللہ عرف درویش اور دوسرے سینیئر کمانڈرز سے قریبی تعلق تھا۔ 2018 میں بی آر اے ٹوٹ پھٹ کا شکار ہوئی تو وہ بی این اے میں شامل ہوئے۔
عبدالرشید کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی زندگی کے اہم ترین 15 سال ان تنظیموں میں گزارے۔ اب ان کا اصل روپ دیکھ کر ان سے کنارہ کشی کر کے خود کو حکومت پاکستان کے سپرد کیا۔ انہوں نے ہمیں بہت عزت دی۔ اپنے ملک واپسی پر بہت خوش ہوں۔‘
سرنڈر کرنے والے آواران کے علاقے مشکے کے رہائشی 18 سالہ چنگیز خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے اور ایک غریب گھرانے سے تعلق ہے۔ علاقے کے بی ایل اے کے کمانڈر نے رابطہ کر کے ان کی ذہن سازی کی۔
ہتھیار ڈالنے والے فراز بشیر نے بتایا کہ ان کی عمر 15 سال، تعلیم پرائمری اور تعلق مشکے ضلع آواران کے ایک غریب گھرانے سے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ موٹر سائیکل اور ایک لاکھ روپے کی لالچ میں مسلح تنظیم میں شامل ہوئے تاہم گھر والوں نے رابطہ کر کے انہیں کہا کہ آپ غلط راستے پر ہیں اور واپس بلا لیا۔

ہتھیار ڈالنے والے عبدالرشید نے بتایا کہ ان کا تعلق کیچ کے علاقے بلیدہ زامران سے ہے (فوٹو: ویڈیو گریب)

اس موقعے پر مکران سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما بلوچستان کے وزیر ترقی و منصوبہ بندی ظہور احمد بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان، صوبائی حکومت، سکیورٹی ادارے سب مل کر لڑ رہے ہیں اور دہشت گردوں کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ ریاست پاکستان اور اس کے آئین، نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو مانتے ہیں، ریاست اور حکومت ان کا ہمیشہ کھلے دل سے خیرمقدم کرے گی۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز احمد گورائیہ کا کہنا تھا کہ ’قومی دھارے میں شامل ہونے والوں سے ہمیں بہت ساری چیزیں پتا چلیں کہ کس طرح پروپیگنڈہ کر کے اور ورغلا کر نوجوانوں کو خراب کیا جا رہا ہے اور غیرملکی خفیہ اداروں کا کیا کردار ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے تدارک کے لیے حکومتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اسلام آباد سے اینٹی منی لانڈرنگ اور اینٹی ٹیررزم فنانسنگ اتھارٹی کے چیئرمین بلوچستان آئے ہیں۔ یہاں نیکٹا، ایس ایس سی پی، سی ٹی ڈی، اے این ایف، کسٹمز  کے حکام کے ساتھ مل کر ہم نے فریم ورک طے کیا کہ کس طرح ان کا تدارک کرنا ہے۔‘
مکران سے تعلق رکھنے والی پارلیمانی سیکریٹری برائے کھیل مینا مجید نے اس موقعے پر کہا کہ یہ صرف چار کہانیاں نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح بلوچ قوم، نوجوانوں اور خواتین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بلوچوں کے حقوق یا بلوچستان کے مفادات کی نہیں بلکہ پیسوں اور غیرملکی مفادات کی جنگ ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان دشمن ممالک کی ایماء پر ہو رہا ہے۔‘

 

شیئر: