Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محبت کی شادی: لڑکی کے مرنے کے 14 سال بعد قتل کا مقدمہ کیسے درج ہوا؟

شاہد علی اور صوفیہ نے سال 2012 میں پسند کی شادی کی تھی۔ فوٹو: فری پک
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی پولیس نے ایک لڑکی کے مبینہ قتل کے 14 سال بعد اس کے شوہر کی مدعیت میں باپ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔
برکی کے علاقے تھانہ ہیئر میں درج مقدمے کے مدعی لڑکی کے شوہر شاہد علی ہیں۔
تھانے میں درج ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق شاہد اور صوفیہ نے سال 2012 میں پسند کی شادی کی تھی۔
تاہم شادی کے چند دن بعد ہی لڑکی کے گھر والے پنچایت کے ذریعے لڑکی کو باقاعدہ رخصت کرنے کے بہانے اپنے ساتھ لے گئے اور چار سے پانچ روز میں روایتی طور طریقے کے ساتھ رخصتی کا وعدہ کیا۔
تاہم اہل خانہ نے صوفیہ کی رخصتی نہیں کی اور نہ ہی ان کو اپنے شوہر کے پاس واپس جانے دیا۔ نتیجاتاً شاہد علی ایک مہینے کے بعد لاہور چھوڑ کر ساہیوال آباد ہو گئے جہاں انہوں نے دوسری شادی کر لی۔
ایف آئی آر یہ بھی بتاتی ہے کہ حال ہی میں شاہد علی کو معلوم ہوا کہ ان کی سابقہ بیوی اس دنیا میں اب نہیں رہی۔ شاہد علی نے تھانے میں قتل کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دے دی۔ جبکہ پولیس نے ابتدائی انکوائری کے بعد ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے شاہد نے بتایا کہ ’میں پینٹ کا کاروبار کرتا ہوں اور آج سے 15 سال پہلے 2010 میں مجھے صوفیہ سے محبت ہو گئی تھی اور یہ دو طرفہ تھی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ ہم تعلق میں رہے اور پھر شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم دونوں کو اس بات کا اندازہ تھا کہ اس کے گھر والے نہیں مانیں گے۔ اس لیے ہم نے کورٹ میرج کا فیصلہ کیا۔‘

پولیس نے ابتدائی انکوائری میں ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے شاہد کا کہنا تھا کہ ’پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ مسنون نکاح کے بعد جب میں صوفیہ کو گھر لے آیا تو اس کے گھر والے پہنچ گئے اور پوری پنچایت آ گئی۔ اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ صوفیہ ان کے ساتھ گھر جائے گی اور چند دنوں میں باقاعدہ رخصتی کر دی جائے گی۔ چار پانچ روز کے بعد جب میں نے سسرال سے رابطہ کیا تو انہوں نے مزید دن مانگے۔‘
شاہد علی کی عمر اس وقت 40 برس ہے۔ جب انہوں نے شادی کی تھی تو اس وقت لگ بھگ وہ 25 برس کے تھے اور صوفیہ کی عمر 20 سال تھی۔
کہانی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب ان کے بقول وہ سسرال کی دھمکیوں سے ڈر کر شہر چھوڑ گئے۔
’ایک مہینہ گزر چکا تھا اور صوفیہ کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ میرے سسرالیوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر دوبارہ اس کا نام لیا تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا، بہتر ہے شہر چھوڑ جاؤ۔ جس کے بعد میں ڈر گیا اور ساہیوال چلا گیا۔ جہاں میں نے رنگ کا کام شروع کر دیا۔‘
شاہد علی نے اس واقعے کے دو سال بعد 2014 میں ساہیوال میں دوسری شادی کر لی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے گھر والوں کا دباؤ تھا کہ صوفیہ واپس نہیں آئے گی۔ ہم نے بہت کوشش کی ہے لیکن اس کے گھر والے انکاری ہیں تو تم اب شادی کر لو۔ جس کے بعد میں نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا۔‘
کہانی میں دوسرا موڑ اس وقت آتا ہے جب شاہد کو حال ہی میں اس بات کا پتہ چلا کہ ان کی زوجہ اس دنیا میں نہیں رہی۔
’مجھے پچھلے سال دسمبر میں پتا چلا کہ صوفیہ زندہ ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں پولیس کے پاس جاؤں گا۔ پولیس کو درخواست دی اور انہوں نے اپنے طور پر اس کیس کی انکوائری کی اور اب 21 جنوری کو ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔‘

پولیس نے شوہر کی مدعیت میں باپ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس کہانی میں اب بھی کئی جھول ہیں خاص طور پر شاہد علی کی اتنے عرصے کی خاموشی۔ اس حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا تو شاہد علی نے کہا کہ وہ ڈرے ہوئے تھے۔ تاہم اب ان کے پاس اس بات کا جواب نہیں تھا کہ ان کا ڈر دور کیسے ہوا۔
تھانہ ہیئر کے انچارج انویسٹی گیشن حسنین سلیم خان کا ماننا ہے کہ ’کہانی کے کچھ سوالوں کے جواب پولیس ابھی ڈھونڈ رہی ہے اور جلد ہی تمام حقائق سامنے لائے جائیں گے۔ لیکن اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ صوفیہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ پولیس اس کیس کی مزید جانچ کر رہی ہے۔ چونکہ معاملہ بہت ہی پرانا ہے، اس لیے حقائق تک پہنچنے میں وقت لگ سکتا ہے۔‘

 

شیئر: