امریکہ کے تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے عملے کے ارکان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ چھ جنوری 2021 کو کیپٹل ہل پر حملے اور فوجداری مقدمات سے متعلق سوالات کا جواب دیں، جس کے بعد مزید ملازمین کو فارغ کیے جانے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے نے سوالات کے مسودے کو دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں سٹاف ارکان کو مخاطب کیا گیا ہے جنہوں نے چھ جنوری 2021 کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپٹل ہل پر حملے کی تحقیقات کے حوالے سے کوئی کردار ادا کیا یا پھر انہوں نے تحقیقاتی کام کی نگرانی میں مدد دی ہو۔
مزید پڑھیں
ایف بی آئی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر برائے فوجداری ڈویژن چیڈ یربرو کی جانب سے ای میل کی گئی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ’میں جانتا ہوں کہ یہ سوالنامہ وصول کرنے والوں کے ذہن میں کئی سوالات اور خدشات موجود ہیں، جن کا جواب تلاش کرنے میں مجھے مشکلات کا سامنا ہے۔‘
چیڈ یربرو کی جانب سے ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ پیر کو سہ پہر تین بجے تک سوالات کے جواب دیں۔
دوسری جانب ایف بی آئی کے ترجمان نے سوالنامے کے معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
ڈیموکریٹس اور دوسرے ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم ایف بی آئی اور محکمہ انصاف کے ان اہلکاروں کو فارغ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جنہوں نے ٹرمپ اور چھ جنوری کے فسادات میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری مقدمات میں کردار ادا کیا تھا۔
20 جنوری کو وائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد صدر ٹرمپ نے کیپٹل ہل پر حملے میں ملوث 14 افراد کی سزاؤں میں کمی کی اور باقی کو معاف کر دیا تھا، جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران پر تشدد کیا تھا۔
ایکٹنگ ڈپٹی اٹارنی جنرل ایمل بوو نے جمعے کو ایف بی آئی سے مطالبہ کیا کہ وہ منگل کی دوپہر تک ان تمام سٹاف ارکان کی فہرست حوالے کرے جنہوں نے واقعے کے بعد ہونے والے مقدمات کے ضمن میں کام کیا جبکہ ایسے لوگوں کی فہرست بھی مانگی گئی جنہوں نے عسکریت پسند گروپ حماس کے ان ارکان کے خلاف درج مقدمات پر کام کیا ہو جو غزہ جنگ میں ملوث تھے۔
انہوں نے ایجنسی ہیڈکوارٹرز کے ساتھ ساتھ میامی، واشنگٹن ڈی سی اور دوسرے فیلڈ دفاتر کے سربراہان کو بھی برطرف کیا تھا۔
ایمل بوو نے پچھلے ہفتے ایک درجن سے زائد محکمہ انصاف کے ان پراسیکیوٹرز کو بھی برطرف کیا جنہوں نے خصوصی وکیل جیک سمتھ کے لائے گئے کسیز پر کام کیا جن میں سے ایک 2020 کے الیکشن کے نتائج الٹنے کی کوشش اور دوسرا خفیہ سرکاری دستاویز سے متعلق تھا۔
قومی سلامتی کے امور میں مہارت رکھنے والے وکیل مارک زید نے ایمل بوو کو ارسال کیے گئے خط میں لکھا کہ ان کے اقدامات مناسب اقدامات کے طریقہ کار کے خلاف دکھائی دیتے ہیں اور کسی فرد کی انفارمیشن کو عام کیا گیا تو اس سے اس کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
انہوں نے ایکس پر پوسٹ کیے جانے والے خط میں لکھا کہ ’اگر آپ اہلکاروں کی برطرفی یا ان کی شناخت عوامی سطح پر ظاہر کرنے جا رہے ہیں تو ہم قانونی ذرائع سے ان کے حقوق کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔‘
ایف بی آئی کے ایکٹنگ ڈائریکٹر برائن ڈریسکول نے جمعے کو عملہ ارکان کو بھیجی گئی ایم میل میں ایمل بوو کے حکم کے بارے میں تفصیلات بتائی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس میں ملک بھر کے وہ تمام ہزاروں ملازمین شامل ہیں جنہوں نے تحقیقاتی سرگرمیوں میں مدد دی تھی اور میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔‘
بیورو میں سے مزید لوگوں کی فراغت کی رپورٹس کے باوجود اسسٹنٹ ایف بی آئی ڈائریکٹر اینڈ انچارج نیو یارک آفس نے واضح کیا ہے کہ ابھی تک مزید کسی ملازم کو مستعفی ہونے کا نہیں کہا گیا ہے۔