سعودی عرب کی کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے مملکت بھر میں کئی ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جو شمسی اور ہوا سے توانائی کے ذخیرے کے لیے موزوں ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق کاؤسٹ یونیورسٹی نے گزشتہ روز پیر کو تحقیق کے نتائج جاری کرتے ہوئے بتایا ہے ’سائنسی اور اقتصادی عوامل کے حوالے سے 10 مقامات کا جائزہ لینے کے بعد بحیرہ احمر کے قریب واقع دو مقامات سب سے زیادہ موزوں پائے گئے ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
سعودی عرب میں سولر پاور پلانٹ کے لیے انڈین کمپنی سے معاہدہ
Node ID: 556246
-
-
سعودی عرب میں شمسی توانائی سے چلنے والی پہلی گاڑی متعارف
Node ID: 883141
ان دو ’پرکشش‘ مقامات کے لیے تقریباً ساڑھے 16 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہو گی لیکن ان کی مکمل جانچ کے لیے تاحال مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
یہ مقامات سعودی وژن 2030 کے تحت مملکت میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی منتقلی تیز کرنے اور آبی وسائل کے انتظام کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوں گے۔
مملکت کے پاس شمسی اور ہوائی توانائی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں اس لیے اس تحقیق نے اس بات کا تعین کرنے پر توجہ دی ہےکہ ان قابل تجدید ذرائع کی منتقلی کس طرح ملک میں پانی کے انتظام کی معاونت کر سکتی ہے تاکہ کم از کم آدھی بجلی کی گنجائش قابل تجدید توانائی ذرائع سے حاصل کی جا سکے۔
تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر یوشیہائیڈے وادا نے اس بات پر زور دیا کہ مملکت کے پائیدار مستقبل کے لیے قابل تجدید توانائی ناگزیر ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے توانائی کے شعبے میں نمایاں تبدیلیاں ضروری ہیں جو 2022 میں مملکت کے کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کا تقریباً نصف حصہ دار تھا۔
پروفیسر وادا نے مزید بتایا ’اصل چیلنج توانائی کو ذخیرہ کرنے کا طریقہ ہے تاکہ اسے زیادہ طلب کے وقت استعمال کیا جا سکے۔‘
پروفیسر یوشیہیدے وادا، جولیان ہنٹ اور ان کے ساتھیوں کی یہ تحقیق ’ری نیوایبل اینڈ سسٹین ایبل انرجی ریویوز‘ کی ویب سائٹ پر شائع کی جا چکی ہے۔

مملکت میں بجلی کی کھپت گرمیوں کے موسم میں نمایاں طور پر بڑھ جاتی ہے جس کے لیے ایسے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے جو موسم سرما کے مہینوں میں ہوا اور شمسی ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی کو ذخیرہ کر کے موسم گرما میں استعمال کی جا سکے۔
توانائی ذخیرہ کرنے کے لیے جس حل پر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے ان میں سے ایک بیٹری سٹوریج حل ہے جو توانائی ذخیرہ کرتی ہیں۔
محققین کے مطابق اس طریقہ کار میں صاف شدہ پانی اونچے پہاڑوں پر موجود ذخیرہ گاہوں میں محفوظ کیا جا سکتا ہے اور طلب کے مطابق اس سے توانائی پیدا کی جا سکتی ہے اور پانی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
