سعودی عرب میں شمسی توانائی کے منصوبوں میں تیزی
شمسی فوٹو وولٹک توانائی 2050 تک مشرق وسطی میں توانائی کے ذرائع سے 50 فیصد سے زیادہ حصہ فراہم کرے گی‘ ( فوٹو: سبق)
سعودی عرب خطے میں توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اقدامات تیز کرتے ہوئے شمسی توانائی کے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب شمسی توانائی کی بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال ہے جو اسے صاف توانائی کی بڑی مقدار پیدا کرنے کے قابل بناتی ہیں۔
آئل پرائس ویب سائٹ نے توقع ظاہر کی ہے کہ شمسی فوٹو وولٹک توانائی 2050 تک مشرق وسطی میں توانائی کے ذرائع سے 50 فیصد سے زیادہ حصہ فراہم کرے گی جبکہ 2023 میں یہ حصہ صرف دو فیصد ہے۔
یہ زبردست ترقی اس بات کی عکاس ہے کہ خطے کے ممالک قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری بڑھا رہے ہیں اور فوسل فیول پر انحصار کم کر رہے ہیں۔
اس بات کی بھی توقع کی جارہی ہے کہ مشرق وسطی میں توانائی کی ضرورت دو ہزار ٹیرا واٹ فی گھنٹہ بڑھ جائے گی۔
سعودی انویسٹمنٹ فنڈ نے چینی کمپنیوں کے ساتھ دو اہم معاہدے کر رکھے ہیں جن میں سے پہلے معاہدے کے تحت 20 گیگا واٹ کی گنجائش کے ساتھ شمسی پینلز کی تیاری کے لیے فیکٹری قائم کی جائے گی۔
جبکہ دوسرا معاہدہ سالانہ 10 گیگا واٹ پیداواری صلاحیت کے ساتھ این ٹائپ شمسی سیلز اور فوٹوو ولٹک شمسی ماڈیولز کی تیاری ہے۔