پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا نگران ادارہ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لیے شہریوں کی بینکنگ ٹرانزیکشز کی معلومات تک رسائی چاہتا ہے۔
اس ضمن میں ایف بی آر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 اور سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 میں ترامیم کا خواہاں ہے۔ ان مجوزہ ترامیم کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو بینک اکاؤنٹس رکھنے والے شہریوں کی معلومات تک رسائی کا حصول ممکن بنانا چاہ رہا ہے۔
مزید پڑھیں
-
وزیراعظم آفس اور ایف بی آر کا ’پروفیشنل تعلق‘ کیوں نہ بن سکا؟Node ID: 876968
مجوزہ ترامیم کے تحت، ایف بی آر بینکوں کو اس بات کا پابند بنائے گا کہ وہ شہریوں کے اثاثوں یعنی انکم ٹیکس گوشواروں میں بتائی گئی معلومات کی روشنی میں اُن کی بینک ٹرانزیکشنز کی تفصیلات فراہم کریں اور اگر کسی ٹیکس دہندہ، چاہے وہ فائلر ہو یا نان فائلر، نے اپنے اثاثوں سے زائد رقم نکلوائی تو اُس کے خلاف ایف بی آر قانونی کارروائی کا مجاز ہو گا۔
تاہم ٹیکس ماہرین بینکوں میں موجود شہریوں کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایف بی آر کے اس قدم سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی۔
ایف بی آر کی مجوزہ ترامیم کے پیچھے مقاصد کیا ہیں؟
ایف بی آر کی انکم ٹیکس قوانین میں مجوزہ ترامیم کے پس منظر کے حوالے سے معاشی امور کے سینیئر صحافی اشرف ملخم نے اردو نیوز کو بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو گذشتہ کچھ عرصے سے بینکوں سے یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ وہ شہریوں کے بینک اکاؤنٹس کا ڈیٹا فراہم کریں تاکہ وہ اُن کے اکاؤنٹ میں موجود رقم اور سالانہ ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ براہ راست اپنے پاس رکھ سکیں۔
’چونکہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت بینک کسی شہری کی ذاتی معلومات شیئر نہ کرنے کے پابند ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایف بی آر کو بینکوں سے کوئی خاطر خواہ معاونت نہیں مل سکی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایف بی آر نے اب ایک نیا حل نکالتے ہوئے ترامیم تجویز کی ہیں کہ بینک بے شک کسی شہری کے اکاؤنٹ کی مکمل تفصیلات نہ دیں البتہ، انکم ٹیکس گوشواروں کے مطابق آمدن سے زائد اثاثے رکھنے والے اکاؤنٹ ہولڈرز کی معلومات ایف بی آر کو ضرور فراہم کی جائیں۔‘

اشرف ملخم کے مطابق اب مجوزہ ترامیم کی منظوری کی صورت میں ایف بی آر بینکوں کو شہریوں کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرے گا، اور جواب میں ایف بی آر بینکوں سے یہ معلومات لے گا کہ آیا کسی شہری نے اپنے اثاثوں سے زائد آمدن نکلوائی ہے یا نہیں۔
’اگر بینکوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات میں کسی شہری کی ٹرانزیکشنز اُس کے اثاثوں سے زائد نکلتی ہے تو پہلے سے موجود قوانین کے تحت اُسے سزا دی جائے گی۔‘
’غیررجسٹرڈ معیشت پروان چڑھے گی‘
ٹیکس امور اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق سمجھتے ہیں کہ ایف بی آر کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے قانون سازی کرتے ہوئے اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ کسی شہری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو رہی ہو۔
اُنہوں نے کہا کہ ’ایف بی آر کی مجوزہ ترامیم دراصل انکم ٹیکس قوانین کی ہی خلاف ورزی ہے اور شاید ایف بی آر حکام کو انکم ٹیکس قوانین کی زیادہ معلومات ہی نہیں۔‘
’انکم ٹیکس کے موجودہ قوانین کے تحت بینک کسی شہری کی ذاتی معلومات ایف بی آر کو فراہم نہیں کر سکتے۔ اگر بینک لوگوں کے اکاؤنٹس کی معلومات ایف بی آر کو فراہم کرنا شروع کر دیں تو پھر شہری بینک میں جانا ہی چھوڑ دیں گے اور اس کے نتیجے میں غیررجسٹرڈ معیشت کو فروغ ملے گا۔‘

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق ’بنیادی طور پر انکم ٹیکس قوانین آمدن پر ٹیکس عائد کرنے کے اصول فراہم کرتے ہیں اور شہریوں کی ذاتی معلومات کو پبلک کرنے یا اُن پر پابندیاں لگانے جیسے عمل کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔‘
انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر ایسے قوانین وجود میں آتے ہیں تو ان کا بہت غلط استعمال بھی ہو سکتا ہے۔
’کیونکہ اگر آپ نے نجی آڈیٹرز یا اپنے کمشنرز کو ایسے ’ڈریکولین قوانین‘ بنا کر اختیارات دیے تو یہ اقدام ذاتی پسند و ناپسند پر بدعنوانی کو جنم دے گا۔‘