Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اصل قیمت سے زیادہ ٹیکس، ایف بی آر نے کوئٹہ میں پراپرٹی کے کاروبار کو کیسے متاثر کیا؟

امیر حمزہ کے مطابق ٹیکسز تو وہی پرانے ہیں مگر قیمتوں کے غلط تعین کی وجہ سے جائیداد کی خرید و فروخت  کی صورت میں ٹرانسفر پر ٹیکسز بے تحاشا بڑھ گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
’میں نے کچھ عرصہ قبل کوئٹہ میں 15 لاکھ روپے کی جائیداد خریدی مگر جب اسے اپنے نام پر منتقل کروانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس کی ٹرانسفر (انتقال) پر ایک کروڑ 42 لاکھ روپے کا خرچ آئے گا۔‘
امیرحمزہ کوئٹہ میں پراپرٹی کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں اور اب پراپرٹی پر عائد ٹیکسز میں اضافے سے پریشان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جائیداد کی ملکیت کی منتقلی پر حکومتی ٹیکسز میں اضافے کی وجہ سے کوئٹہ میں پراپرٹی کی خرید و فروخت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور لوگ مجبوری میں بھی جائیداد خرید اور فروخت نہیں کر پا رہے۔‘
امیر حمزہ کے مطابق یہ صورتِ حال فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے اکتوبر 2024 میں پراپرٹی ویلیوایشن (جائیداد کی قیمتوں کے نئے نرخ) کے اجرا کے بعد پیدا ہوئی جس میں شہر کے مرکزی علاقوں کے علاوہ دیہی اور غیرآباد علاقوں کی اراضی کی قیمتوں میں بھی دو ہزار فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’قیمتوں کا تعین پراپرٹی ڈیلرز اور متعلقہ شعبوں کے افراد سے مشاورت کے بغیر کیا گیا ہے اور بیشتر علاقوں میں حقیقی قیمتوں کے بجائے مبالغہ آرائی کی حد تک قیمتیں بڑھائی گئی ہیں۔‘
ایف بی آر کی جانب سے ملک کے 54 بڑے شہروں میں زمینوں کی قیمتوں کے تعین کا نوٹیفکیشن 29 اکتوبر کو جاری کیا گیا تھا۔ ایف بی آر کے مطابق نرخوں میں اضافہ سروے کے بعد کیا گیا جس کا مقصد جائیدادوں پر ٹیکس وصولیوں کو بڑھانا ہے۔ 
تاہم کوئٹہ کے ایک معروف پراپرٹی ڈیلر احتشام صدیقی کہتے ہیں کہ ’ایف بی آر کے نئے نوٹیفکیشن سے ٹیکس وصولیوں میں اضافے کی بجائے نمایاں کمی آئی ہے۔‘
بلوچستان پراپرٹی اینڈ بلڈرز ایسوسی ایشن کے صدر امیر حمزہ کے مطابق ٹیکسز تو وہی پرانے ہیں مگر قیمتوں کے غلط تعین کی وجہ سے جائیداد کی خرید و فروخت  کی صورت میں ٹرانسفر پر ٹیکسز بے تحاشا بڑھ گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایف بی آر فائلر سے پراپرٹی کی ٹرانسفر پر 12 فیصد ٹیکس لیتا ہے جب کہ پانچ سال کے اندر یہی جائیداد دوبارہ کسی اور کو ٹرانسفر کرنے پر 45 فیصد ٹیکس لیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ علاقے جہاں جائیداد کی اصل قیمت تین ہزار روپے فی فٹ ہے وہاں ایف بی آر نے اس کی قیمت کا تعین 25 ہزار روپے فی فٹ کے حساب سے کیا ہے۔‘

احتشام کے مطابق جو جائیداد پہلے 3 لاکھ روپے میں ٹرانسفر ہوجاتی تھی اب اس پر  60 لاکھ روپے لگ رہے ہیں۔ (فوٹو: ایکس)

ان کا کہنا تھا کہ ’اس طرح 1200 فٹ کے پلاٹ کی قیمت جو پہلے 36 لاکھ روپے تھی اور اس کی ٹرانسفر پر 12 فیصد کے حساب سے 4 لاکھ 32 ہزار روپے ٹیکس بنتا تھا اب اسی جائیداد کی قیمت ایف بی آر کی جانب سے 25 ہزار روپے فی فٹ کے حساب سے 3 کروڑ روپے مقرر کرنے پر ٹیکس 36 لاکھ روپے یعنی پوری جائیداد کی قیمت کے برابر ہو گیا ہے۔‘
امیر حمزہ کے مطابق کچھ علاقوں میں تو قیمتوں کے اس غلط تعین کی وجہ سے ٹیکس جائیداد کی اصل قیمت سے بھی کئی گنا زیادہ بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’صوبائی حکومت ڈی سی ٹیبل کے مطابق الگ سے سات فیصد ٹیکس وصول کرتی ہے۔ دونوں ٹیکسز ملا کرجائیداد کے انتقال پر ٹیکسز اس قدر زیادہ ہوگئے ہیں کہ لوگوں نے جائیداد کی خرید و فروخت ہی چھوڑ دی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ مجبور ہیں انہیں پیسوں کی ضرورت ہے وہ بھی اپنی جائیداد فروخت نہیں کر پا رہے۔ کچھ لوگ تو مجبوراً حلف نامے یا اسٹامپ پیپر پر خرید و فروخت کر رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں حکومت کو  بھی فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے۔‘
احتشام صدیقی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’جو جائیداد پہلے 3 لاکھ روپے میں ٹرانسفر ہوجاتی تھی اب اس پر  60 لاکھ روپے لگ رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’قیمتوں کے اس نئے تعین سے پہلے اگر ایک پراپرٹی کی ٹرانسفر پر ایف بی آر کے ٹیکسز 60 لاکھ روپے تھے تو اب وہ ساڑھے چار کروڑ روپے  سے بھی تجاوز کر گئے ہیں۔‘

پٹوار ایسوسی ایشن بلوچستان کے مطابق ایف بی آر کے نئے نوٹیفکیشن کے بعد سے جائیداد کی رجسٹریشن اور منتقلی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ (فوٹو: ایکس)

ان کا کہنا تھا کہ ’پراپرٹی پر ٹیکسز سے حکومتی آمدن کم ہوئی ہے کیوں کہ حکومت نے خود چور دروازہ کھول دیا ہے اور لوگ اب ریونیو عملے کو رشوت دے کر اپنی جائیداد کو  اے کی بجائے سی کیٹیگری میں ڈکلیئر کروا رہے ہیں۔‘
احتشام صدیقی کے مطابق کوئٹہ تحصیل کے 50 سے زائد وارڈز ہیں روزانہ سو سے ڈیڑھ سو انتقال اور فرد جاری ہوتی تھیں اب دس فرد بھی جاری نہیں ہو رہیں۔
پٹوار ایسوسی ایشن بلوچستان کے صدر اسد مری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’ایف بی آر کے نئے نوٹیفکیشن کے بعد سے جائیداد کی رجسٹریشن اور منتقلی کے عمل میں نمایاں کمی آئی ہے۔‘
پراپرٹی اینڈ بلڈرز ایسوسی ایشن کے صدر امیر حمزہ کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں خشک سالی، بدامنی اور سرحدوں پر تجارت پر پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی پراپرٹی سمیت بیشتر شعبوں میں مندی ہے۔‘
ان کے بقول کوئٹہ میں چند سال پہلے کے مقابلے میں جائیداد کی قیمتوں میں گراوٹ آئی ہے جب کہ زمینی حقائق کا اداراک کرنے کی بجائے ایف بی آر نے قیمتوں کا غیر حقیقی تعین کرکے اس شعبے کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور رہی سہی سرمایہ کاری بھی ختم ہو رہی ہے ۔
ایف بی آر کے کمشنر ان لینڈ ریونیو کوئٹہ رحمت اللہ درانی نے اردونیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’اس سلسلے میں صوبائی حکومت کے ریونیو حکام کے ساتھ مشاورت جاری ہے اور جلد اس مسئلے کو حل کرلیا جائےگا۔‘
تاہم، انہوں نے اس حوالے سے تفصیلی مؤقف دینے سے گریز کیا۔

شیئر: