بلوچستان کے ضلع لورالائی کے علاقے میختر سے تعلق رکھنے والے خان شائستہ خان ڈیرہ غازی خان میں مزدوری کرتے ہیں۔
وہ 2012 سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ نظریاتی وابستگی کے دعویدار ہیں۔ 26 جنوری کی رات خان شائستہ خان نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس پر انہیں امید تھی کہ وہ کامیاب ہوجائیں گے۔
21 سالہ خان شائستہ خان نے 27 جنوری کی صبح ڈیرہ غازی خان سے لاہور تک 450 کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرنے کا فیصلہ کیا۔
ایک سکول بیگ میں چند جوڑے کپڑے اور ضروری سامان لیے وہ لاہور کی سفر پر نکل پڑے۔ خان شائستہ خان یہ ’پیدل مارچ‘ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، موجودہ وزیراعظم شہباز شریف یا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے ملاقات کے لیے کر رہے تھے، لیکن ہر طرح کی مشکلات برداشت کرنے کے باوجود وہ اپنے پسندیدہ سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کیے واپس ڈیرہ غازی خان روانہ ہو گئے ہیں تاہم انہوں نے دوبارہ پیدل سفر کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
نوجوانوں کا منشیات کے خلاف 300 کلومیٹر پیدل مارچNode ID: 459116
ڈیرہ غازی سے لاہور کی طرف پیدل سفر کرنے کے لیے راستہ کٹھن تھا۔ دھوپ کی تپش، سرد ہوا، راتوں کی تنہائی، اور پاؤں میں چھالوں کی تکلیف مگر خان شائستہ خان کے قدم جذبوں کی رفتار سے اُڑتے جا رہے تھے۔
ان کے بقول ’مسلم لیگ اور شریف فیملی کے ساتھ میری محبت کی کہانی 2012 سے شروع ہوئی ہے۔ میں نے کئی بار پیدل مارچ کا فیصلہ کیا لیکن 27 جنوری کو رخت سفر باندھ کر اپنا ارادہ سچ کر دکھایا۔ 17 جنوری سے قبل ارادہ ظاہر کیا اور سوشل میڈیا پر بھی بتایا لیکن تب معاملات نہ بن سکے اس لیے 27 کو ہی اپنے سفر کو حتمی شکل دی۔‘

شائستہ خان جو ایک نجی بس سروس میں ملازمت کرتے تھے، کا کہنا ہے کہ ’21 اکتوبر کو جب نواز شریف پاکستان آ رہے تھے، تو میں نے لاہور آنے کا ارادہ کیا لیکن مجھے چھٹی نہیں مل رہی تھی اس لیے میں نے وہ کام چھوڑ دیا نواز شریف کے جلسوں کے لیے میں پورے پاکستان جاتا رہا ہوں۔ آج کل میں ایک اور بس سروس کے ساتھ بطور منشی کام کر رہا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں کر رہا کیونکہ میں نے پیدل مارچ کا ارادہ کیا تھا۔‘
اپنے سفر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’میرے پاس موبائل تھا جس پر میں روزانہ اپنی ویڈیو بھی بناتا اور لوکیشن کو دیکھ دیکھ کر آگے بڑھتا گیا کیونکہ مجھے راستے کا علم نہیں تھا۔‘
شائستہ خان نے اپنے نام کے ساتھ ’میاں‘ اور ’شریف‘ کا سابقہ اور لاحقہ بھی لگایا ہے جبکہ اپنے کمرے میں جگہ جگہ نواز شریف اور مریم نواز کے لیے تعریفی کلمات بھی لکھے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے میاں نواز شریف کا نظریہ پسند ہے۔ مجھے ان کی خاموشی، پنجاب اور پاکستان میں ترقیاتی کام اور ان کی گفتگو سے محبت ہے۔‘
وہ 10 فروری کو لاہور میں داخل ہوئے اور جاتی عمرہ پہنچے۔ راستے میں جگہ جگہ ان کے استقبال کے لیے کارکن بھی جمع ہوئے تھے۔

میاں چنوں، ساہیوال، ملتان اور دیگر مقامات پر ان کا استقبال کیا گیا اور ہار بھی پہنائے گئے۔ انہوں نے ایک بینر اور مسلم لیگ ن کے جھنڈے اٹھائے رکھے تھے۔ جاتی عمرہ کی سکیورٹی نے روک لیا کہ ایسے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
’میں نے کہا کہ مجھے یہیں کھڑا رہنے دیں وہ دیکھیں گے تو ملنے کا کہہ سکتے ہیں لیکن اجازت نہیں ملی۔ اس کے بعد وہیں ہوٹل میں ایک رات گزارنے کے لیے چلا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس دوران انہیں تھانہ سٹی رائیونڈ کے اہلکار تھانے لے گئے اور پوچھ گچھ شروع کی تاہم پھر ضلع لورالائی مسلم لیگ ن کے جنرل سیکریٹری حاجی مومن خان ناصر نے وہاں سے نکالا۔
انہوں نے اس کے بعد لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس بھی کی تاہم کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں گاڑی میں بھی آ سکتا تھا لیکن پیدل مارچ کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو میں نواز شریف اور ان کی فیملی کی محبت میں یہ کرنا چاہتا تھا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مجھے یہ یقین تھا کہ اس طرح ان کا دل نرم ہو گا تو یہ مجھ سے ملاقات کر لیں گے، مگر یہ خواہش ادھوری رہ گئی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس مارچ پر ان کے 90 ہزار روپے خرچ ہوئے۔
’یہاں پہنچنے پر کہا گیا کہ فلاں ایم پی اے یا ایم این سے بات کریں، جس پر مایوسی ہوئی کہ نظریاتی کارکن کی اتنی بھی قدر نہیں کہ اپنے لیڈرز سے مل سکے۔‘

انہوں نے پہلے روز 30 اور دوسرے دن 40 کلومیٹر سفر کیا اور پھر ان کے بقول ’پاؤں میں چھالے پڑنے لگے مگر عزم پکا تھا۔‘
شریف فیملی کے کسی بھی فرد سے ملاقات نہ ہونے پر شائستہ خان مایوس تو ضرور ہوئے ہیں لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی۔
’مجھے کوئی منسٹری یا عہدہ نہیں چاہیے۔ میں صرف ملنا چاہتا تھا۔ لیکن اب میں دوبارہ مارچ کروں گا اور تب تک پیدل چلوں گا جب تک ملاقات نہ ہو جائے۔‘
اس حوالے سے جب وزیراعظم کے مشیر شبیر احمد عثمانی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پارٹی میں ہر کام کے لیے ایک باقاعدہ نظام موجود ہے۔ ہماری پارٹی نظریاتی کارکنوں کی ہے اور ہمیں ان کی محبت کا احساس بھی ہے لیکن یوں ملاقات ہونا کبھی کبھی ممکن نہیں ہو پاتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’شائستہ خان یا ان جیسے کسی بھی کارکن کے جذبات کی قدر کرتے ہیں، یہ کسی بھی وقت ہمارے دفتر آ جائیں، ہم کوشش کریں گے کہ ان کا مطالبہ شریف فیملی تک پہنچائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم خود شائستہ خان کو لے کر آئیں گے اور انہیں سہولتیں بھی دیں گے، یہ معاملہ پہلے ہمارے علم میں نہیں تھا۔ کارکنوں سے ملاقات کا سلسلہ بھی جلد شروع ہو رہا ہے، اس لیے شائستہ خان کے لیے راستہ نکالیں گے۔‘
ان کے مطابق ’کارکنوں اور قیادت کے مابین کوئی فاصلہ موجود نہیں لیکن ملکی ذمہ داریاں حائل ہوتی ہیں۔‘