پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز ان دنوں ’ہونہار سکالرشپ پروگرام‘ کے ذریعے صوبے کے ہزاروں طلبہ میں رقم تقسیم کر رہی ہیں۔
اس سکالرشپ پروگرام کے تحت یونیورسٹیز میں ذہین طلبہ کے لیے معیار کا ایک نظام وضع کیا گیا ہے۔ جو طلبہ اس پر پورا اتر رہے ہیں انہیں ان کے تعلیمی اخراجات کے لیے رقم دی جارہی ہے۔
اس وقت تک لاہور، راولپنڈی، ملتان اور سرگودھا ڈویژنز میں طلبہ کو سکالرشپ الاؤنس دے دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
اس سکالرشپ پروگرام کا طریقہ کار یہ وضع کیا گیا ہے کہ ڈویژن کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں ایک سرکاری تقریب رکھی جاتی ہے۔ اور وہاں وزیر اعلی خود طالب علموں میں سکالرشپ کی رقوم کے چیک تقسیم کرتی ہیں۔ تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ جس بھی یونیورسٹی میں یہ تقریب رکھی جاتی ہے۔ اس دن یونیورسٹی کے اندر انتہائی سخت سکیورٹی کا انتظام ہوتا ہے۔
سکالرشپ پروگرام کی پہلی تقریب لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں منعقد ہوئی۔ چار دسمبر کو جب یہ تقریب پنجاب یونیورسٹی کے فیصل آڈیٹوریم میں رکھی گئی تو اس وقت یونیورسٹی کا ماحول کیسا تھا؟
اس حوالے سے پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط اردو نیوز کو بتایا کہ ’چند روز پہلے ہی ایک سرکلر کے ذریعے تمام سٹاف اور طلبہ کو بتا دیا گیا کہ چار دسمبر کو کلاسز آن لائن ہوں گی اور یونیورسٹی بند ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہر ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹ ایڈوائزر کو کہا گیا کہ جس ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس کو سکالرشپ دی جاری رہی ہے ان کو لانا اور ان کی ذمہ داری بھی اسی ایڈوائزر کی ہو گی۔‘
پروفیسر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’اس دن پنجاب یونیورسٹی کے تمام ڈیپارٹمںٹس کے سٹوڈنٹ ایڈوائزرز فیصل آڈیٹوریم میں موجود تھے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ کسی طالب علم نے کوئی ایسی حرکت کی جس سے تقریب کو خراب کیے جانے کا تأثر پیدا ہو تو متعلقہ سٹوڈنٹ ایڈوائزر ذمہ دار ہوگا۔‘
خیال رہے کہ یونیورسٹیز میں سٹوڈنٹ ایڈوائزر کا عہدہ ہر ڈیپارٹمنٹ میں ہوتا ہے اور اس افسر کی ڈیوٹی طلبہ کی ہر طرح کی سیاسی اور غیرسیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور ان کی شکایات دور کرنا ہوتا ہے۔
اردو نیوز نے ایک سٹوڈنٹ ایڈوائزر سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بھی اندازہ تھا کہ جس طرح کے پاکستان کے سیاسی حالات ہیں اس لیے حد درجہ احتیاط سے کام لیا جارہا ہے۔ اس دن یونیورسٹی کے تمام گیٹس پر سکیورٹی تھی اور کرفیو کا تأثر تھا۔ اور صرف وہ طالب علم بلائے گیے جن کو سکالرشپ دی جانی تھی۔‘
پنجاب یونیورسٹی کے کئی طلبہ جن میں محمد فاروق، محمد اسد، علی فاخر اور حمزہ شامل ہیں، نے بھی اس دن یونیورسٹی کا ماحول کچھ ایسا ہی بتایا۔ اس کے علاوہ درجنوں طالب علموں سے بھی بات کی گئی تو انہوں نے بھی ایسی ہی صورت حال کا بتایا۔
ملتان کی بہاوالدین زکریا یونیورسٹی، سرگودھا یونیورسٹی اور فاسٹ یونیورسٹی میں بھی تقریب کے لیے یہی پروٹوکول رکھا گیا۔
سرگودھا میں مقامی صحافی ندیم خان نے بتایا کہ ’یہاں پر بھی یونیورسٹی کو ایک دن کے لیے آن لائن پر شفٹ کر دیا گیا اور صرف ان طلبا کو بلایا گیا جو کو سکالرشپ دیا جانا تھا۔ حتٰی کہ مقامی میڈیا کو بھی کوریج کی اجازت نہیں تھی۔ اور سکیورٹی کے سخت ترین انتظام کیے گئے تھے۔ تاہم جن طلبہ کو سکالرشپ مل رہی ہے ان کے رویے کافی مثبت نظر آ رہے ہیں۔‘
’میرے نزدیک تو اتنی احتیاط کا مقصد کسی بھی سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز اور تنقید سے بچنا ہے کیونکہ آج کل ساری سیاست سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ہو رہی ہے۔‘
خیال رہے کہ ہونہار سکالرشپ پروگرام کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سکالرشپ پروگرام تصور کیا جا رہا ہے۔ جس میں ہر سال 30 ہزار طلبہ کے تعلیمی اخراجات حکومت برداشت کرے گی جبکہ اگلے چار سال میں یہ تعداد ایک لاکھ 20ہزار ہو جائے گی۔ اور اس پروگرام کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے ترجمان پنجاب حکومت عظمٰی بخاری کا کہنا ہے کہ ’مریم نواز وزیر اعلی ہیں اور اس وقت وہ بچوں کے لیے جو کام کررہی ہیں ہر کسی کے منہ سے ان کے لیے دعا نکل رہی ہے ۔ جائیں ان والدین اور بچوں سے پوچھیں جو تعلیمی اخراجات کی فکر سے آزاد ہو گئے ہیں۔‘
عظمٰی بخاری کے کہنا تھا کہ ’ابھی صرف چار ڈویژن ہوئے ہیں باقی چھ میں بھی جلد یہ تقریبات ہوں گی۔ مریم نواز جس بھی شہر میں جاتی ہیں وہاں عوام اور بچوں سے گھل مل جاتی ہیں۔ جو لوگ مریم نواز کا مقابلہ نہیں کر سکتے وہ غلاظت اور کچرا پھینکنے میں لگے ہوئے ہیں۔‘
ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کی سیاست ہی گالم گلوچ سے شروع ہوتی ہے اور ہر چیز جعلی ہے ان کے ہاتھوں پنجاب کی ترقی یرغمال نہیں بننے دی جائے گی۔ وزیر اعلی کی سکیورٹی اور انتظامات ان کے عہدے کے مطابق ہیں۔‘
سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ مریم نواز اپنے باپ کے نقش قدم پر چل رہی ہیں، انہوں نے اپنا نعرہ کام کو بنایا ہے۔
’میرے خیال میں جس قدر سکالرشپ کی تقریبات کو منظم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر ان کا حق ہے۔ یہ کوئی الیکشن نہیں ہے بلکہ پنجاب کی سب سے بڑی سکالرشپ سکیم ہے۔ اگر ہر تقریب ہلڑ بازی کی نذر ہو تو پھر کیا فائدہ، بلکہ الٹا نقصان ہے۔ پاکستان کی سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس میں کسی سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔‘
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں اس لیے اس بات کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے کہ تقریبات میں کوئی بدمزگی نہ ہو اور کوئی مخالف سیاسی جماعت اس کو ہائی جیک کرنے کی کوشش نہ کرے۔