پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر خضدار کے آٹھ نوجوانوں نے منشیات کے پھیلاؤ کے خلاف پیدل لانگ مارچ شروع کیا ہے۔ لانگ مارچ کے شرکاء تقریباً تین سو کلو میٹر کا فاصلہ نو دنوں میں طے کر کے سنیچر کو کوئٹہ پہنچیں گے۔
مزید پڑھیں
-
’ڈرگ ٹیسٹ نہیں، سمگلرز کے خلاف کارروائی‘Node ID: 436661
-
بلوچستان میں پہلی بار جنسی ہراسانی پر آگاہی کی مہمNode ID: 442161
-
پاکستان میں کم از کم 67 لاکھ افراد نشے کے عادیNode ID: 455721
لانگ مارچ کی قیادت لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگری کلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز وڈھ کیمپس کے طالب علم سجاد بلوچ کر رہے ہیں۔
خضدار سے تعلق رکھنے والے کالج اور یونیورسٹیوں کے چھ دیگر طالبعلم اور ایک مزدور بھی ان کے ہمراہ ہے۔
چھ فروری کو خضدار سے نکلنے والے لانگ مارچ کے شرکاء جمعرات کو مستونگ پہنچے جہاں سے وہ کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئے اور جمعے کو کوئٹہ کی حدود میں داخل ہوئے۔
جمعے کی رات شرکاء کوئٹہ کے قریب میاں غنڈی میں گزاریں گے اور سنیچر کی صبح دوبارہ اپنا سفر شروع کر کے کوئٹہ پریس کلب پہنچیں گے جہاں وہ احتجاجی مظاہرہ بھی کریں گے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں تقریباً 70 لاکھ لوگ نشے کے عادی ہیں۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد ہونے کی وجہ سے بلوچستان منشیات سمگلروں کے لیے سب سے بڑی گزرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

افغانستان میں پیدا ہونے والی منشیات کا ایک بڑا حصہ بلوچستان کے زمینی اور سمندری راستے سے سمگل کیا جاتا ہے۔ گزرگاہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں منشیات ہر علاقے میں آسانی سے ملتی ہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد منشیات کی لت میں مبتلا ہے۔
خضدار سے کوئٹہ کی طرف سفر کرتے ہوئے کھڈ کوچہ کے مقام پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سجاد بلوچ نے بتایا کہ ’ہم اس لیے منشیات کے خلاف لانگ مارچ کر رہے ہیں کہ یہ ناسور پورے معاشرے میں پھیلا ہوا ہے اور ملک و قوم کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ہمارے نوجوان اور طالب علم اس لت میں مبتلا ہو رہے ہیں، انہیں ہر قسم کی منشیات آسانی سے مل رہی ہیں۔ منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے اور آسانی سے دستیابی کی وجہ سے منشیات کے متاثرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔‘

سجاد بلوچ کے مطابق ’لانگ مارچ کا مقصد لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔ ہم جہاں جہاں سے گزر رہے ہیں لوگ ہمارا استقبال کر رہے ہیں۔
’ہم حکومت کو بھی پیغام پہنچا رہے ہیں کہ وہ منشیات کے تدارک کے لیے اقدامات کرے اور نوجوانوں کے لیے مثبت سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ تین سو کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کرنا کتنا مشکل ہے؟ سجاد بلوچ نے بتایا ’ظاہر سی بات ہے کہ آپ تین سو کلومیٹر سے زائد کا پیدل سفر کر رہے ہیں تو مشکلات ہوں گی۔‘
ان کے بقول ’کہیں تھکاوٹ ہوتی ہے، کہیں پر سونے تو کہیں پر کھانے کا مسئلہ ہے۔ ہمارے پاﺅں میں چھالے پڑ چکے ہیں، کچھ دوستوں کے پاﺅں زخمی ہوئے۔ مگر جس طرح عام لوگوں، سماجی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہماری حوصلہ افزائی ہورہی ہے تو ہمارے حوصلے مزید بلند ہوگئے ہیں۔‘
