Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بات چیت مفید رہی،‘ ریاض میں یوکرین جنگ پر امریکہ اور روس کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ختم

مذاکرات سے قبل پیر کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے امریکی وزیر خارجہ نے ملاقات کی (فائل فوٹو: العربیہ)
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں یوکرین جنگ پر امریکی اور روسی حکام کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور اختتام پذیر ہو گیا ہے۔
العربیہ کے مطابق بند کمرے میں ہونے والے اس اجلاس کا پہلا دور کئی گھنٹے تک جاری رہا۔
ریاض میں امریکہ اور روس کے مذاکرات میں شریک صدر پوتن کے معاون یوری اوشاکوف نے کہا ہے کہ ’ساڑھے چار گھنٹے تک جاری رہنے والا اجلاس بہت مفید رہا جس میں انتہائی سنجیدہ اور اہم امور پر بات چیت ہوئی ہے۔‘
العربیہ کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ ’امریکی وفد سے بات چیت میں تمام اہم امور زیرِ بحث آئے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کی کوئی حتمی تاریخ مقرر کرنا مشکل ہے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ آج ریاض میں ہونے والی ملاقات میں متوقع سربراہی اجلاس کی شرائط پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
روسی فریق کی جانب سے بہت اہم قرار دیا جانے والا اجلاس آج صبح قصر الدرعیہ میں شروع ہوا جس میں یوکرین جنگ کے خاتمے کے طریقوں پر امریکی اور روسی حکام نے بات چیت کی۔
مذاکرات میں امریکہ کی جانب سے وزیر خارجہ مارکو روبيو شریک ہوئے جبکہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے ملک کی نمائندگی کی۔
روسی صدر کے معاون یوری اوشاکوف، سرمایہ کاری فنڈ کے سربراہ کیریل دیمترییف، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے معاون مائیک والٹز اور مشرق وسطیٰ کے لیے ان کے خصوصی ایلچی سٹیفن وٹکوف بھی موجود تھے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور وزیر مملکت مساعد العيبان نے بھی ان مذاکرات میں شرکت کی۔
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب یوکرین جنگ پر روس اور امریکہ کے درمیان بات چیت کی میزبانی کر رہا ہے، جس کا مقصد عالمی امن اور سلامتی کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے۔‘
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ہدایت پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آج سعودی عرب اس اہم موقع کا میزبان ہے جہاں ریاض میں روس اور امریکہ کے حکام کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔‘

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور وزیر مملکت مساعد العيبان نے بھی ان مذاکرات میں شرکت کی (فوٹو: العربیہ)

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ اقدام مملکت کی جانب سے عالمی امن اور سلامتی کے لیے کی گئی وسیع کوششوں کا حصہ ہے۔‘
اس حوالے سے روسی وزارت خارجہ نے منگل کو کہا ہے کہ یوکرین سے متعلق آئندہ مذاکرات میں یورپی یونین کا کردار خارج از امکان ہے۔
’العربیہ‘ کے مطابق روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ’اگر یورپ واقعی امن قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنا ہو گی۔‘
روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ’ہم یوکرین میں یورپی افواج کی موجودگی کو کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے۔‘
وزارت نے کہا ہے کہ ’ماسکو، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں کئی مسائل کے حل کے حوالے سے سنجیدگی دیکھ رہی ہے۔‘
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے ریاض میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ ٹرمپ اور پوتن کے درمیان ابتدائی بات چیت کا پہلا قدم ہو سکتا ہے۔‘
ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ’اگر یہ ممکن ہوا تو باقی کے مفادات کے حوالے سے امور بھی طے ہو سکتے ہیں۔‘
تاہم کریملن کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ بات چیت میں ’امریکہ اور روس کے پیچیدہ تعلقات‘ کا ہر طرح سے احاطہ کیا جائے گا۔‘

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبيو اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف بھی مذاکرات میں موجود تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اس میں یوکرین کے حوالے سے کسی ممکنہ حل اور دونوں صدور کے درمیان ملاقات کی تیاری بھی شامل ہے۔‘
واضح رہے کہ آج منگل کو ریاض میں امریکی، روسی اجلاس جاری ہے جس میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ سعودی وزیرخارجہ بھی شامل ہیں۔
ریاض میں ہونے والے مذاکرات کو سرد جنگ کے دو حریفوں کے درمیان کافی اہم قرار دیا جا رہا ہے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
اس بات چیت کو یوکرین جنگ کے خاتمے اور امریکہ و روس کے درمیان تعلقات کی بحالی کی توقع کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
اس بات چیت سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان سربراہی ملاقات کی راہ ہموار ہونے کا امکان ہے۔ 
یاد رہے کہ روس نے 2014 سے یوکرین کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا تھا جبکہ فروری 2022 میں یوکرین پر ایک بڑا حملہ کیا تھا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ یہ جنگ جلد ختم ہو۔
دوسری جانب یوکرین کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں اس کی جانب سے کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہو سکتا جس میں کیئف کو مدعو نہ کیا گیا ہو۔
امریکی حکام منگل کو ہونے والے مذاکرات کو ابتدائی رابطے کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس سے اس بات کا تعین ہو گا کہ آیا ماسکو یوکرین میں جنگ ختم کرنے میں سنجیدہ ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے ریاض میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ ٹرمپ اور پوتن کے درمیان ابتدائی بات چیت کا پہلا قدم ہو سکتا ہے اور اگر یہ ممکن ہوا تو باقی کے مفادات کے حوالے سے امور بھی طے ہو سکتے ہیں۔‘
تاہم کریملن کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ بات چیت میں ’امریکہ اور روس کے پیچیدہ تعلقات‘ کا ہر طرح سے احاطہ کیا جائے گا جبکہ اس میں یوکرین کے حوالے سے کسی ممکنہ حل اور دونوں صدور کے درمیان ملاقات کی تیاری بھی شامل ہے۔

 

شیئر: