Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاض اجلاس : عالمی امن کی راہ میں رکاوٹ کا خاتمہ ممکن ہے؟

’عالمی سلامتی کے لیے سب سے خطرناک اور معیشت پر سب سے زیادہ بوجھ ڈالنے والی جنگ ہے‘ ( فوٹو: العربیہ)
سعودی دارالحکومت ریاض میں اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کی میزبانی میں روس اور امریکہ کے درمیان طویل انتظار کے بعداہم اجلاس کا انعقاد ہو رہا ہے۔
اس اجلاس کا بنیادی مقصد یوکرین میں جاری جنگ پر بات چیت کرنا اور دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان مکالمے کی بحالی ہے۔
یہ بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک بڑی پیشرفت اور عالمی امن کی سمت ایک عظیم قدم ہے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں یوکرین،روس جنگ کے خاتمے کے امکانات اور امریکی و روسی صدور کے درمیان سربراہی اجلاس کی تیاریوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اس ماہ یعنی فروری  کی 26 تاریخ کو روس،یوکرین جنگ اپنے تیسرے سال میں داخل ہو جائے گی۔ یہ پہلی جنگ نہیں مگر عالمی سلامتی کے لیے سب سے خطرناک اور عالمی معیشت پر سب سے زیادہ بوجھ ڈالنے والی جنگ ہے جس کے تباہ کن اثرات ہر چیز پر پڑ رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین، روس جنگ کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور روس کے ساتھ مکالمے کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ درحقیقت انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے فون پر بھی بات چیت کی ہے۔یہ جنگ جو فی الحال کسی واضح انجام کی طرف جاتی نظر نہیں آتی، یورپی یونین کو ہلا کر رکھ چکی ہے، عالمی اتحادوں کے نقشے کو بدل چکی ہے اور روس و مغرب کے درمیان کئی طرح کی محاذ آرائیاں پیدا کر چکی ہے۔
 اس کے اثرات عرب دنیا میں بھی محسوس کئے جا رہے ہیں خاص طور پر فلسطین، لبنان، شام، یمن اور افریقہ میں۔
کیا یہ جنگ جس میں روس اور اس کے اتحادی ایک طرف اور مغرب اور اس کے اتحادی دوسری طرف کھڑے ہیں، فوراً ختم ہو جائے گی؟
ایسا کہنا قبل از وقت ہوگا مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاض اجلاس نے امن کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ کو ہٹا دیا ہے اور امید کی ایک کھڑکی کھولی ہے، جس سے تازہ ہوا اور روشنی کی کرن چھن کر آ رہی ہے، جو امن کے پھلوں کی بہار کی نوید دے رہی ہے۔
یہ بین الاقوامی سیاسی بساط پر ایک بہت بڑا قدم ہے جو سعودی عرب کے مثبت اور تعمیری کردار کو نمایاں کرتا ہے اور جو پوری انسانیت کے مفاد میں ہے۔
یہی اصل فہم و فراست پر مبنی سیاست کا عروج ہے اور یہی سیاست کو اس کی اصل عزت و وقار واپس دلاتا ہے جبکہ کم ظرف اور چھوٹے ذہنوں نے سیاست کو محض چالاکیوں اور ریشہ دوانیوں تک محدود کر دیا تھا۔ یہاں انسانیت کی فلاح کے لیے نیک نیتی سے کام کرنے کی آواز بلند ہو رہی ہے۔
بشکریہ: الشرق الاوسط
 
 

شیئر: