’ہم جب دیکھتے ہیں کہ ہمارا بچہ جونہی سمجھداری کی عمر کو چھونے لگتا ہے تو وہ خاندان سے کٹ کر اپنی ذات میں گم ہونے لگتا ہے جبکہ پاکستان میں اس کی عمر کے بچے گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں لگ جاتے ہیں تو یہ فکر لاحق ہونا شروع ہو جاتی ہے کہ یہ جوانی کی دہلیز تک پہنچتے ہی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔‘
دوسری طرف اس عمر یا بعد جوانی پاکستان سے برطانیہ آنے والے لڑکے کمائی میں برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچوں سے بہت آگے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھ کر اب والدین آٹھ سے 15 برس کے بچوں کو ایک دو یا تین سال کے لیے پاکستان منتقل کر رہے ہیں تاکہ ان میں دیسی پن آ جائے۔‘
یہ کہنا ہے گجرات سے تعلق رکھنے والے فخر حسین کا جو آج سے 20 برس قبل برطانیہ میں مقیم اپنی کزن سے شادی کرکے وہاں منتقل ہوئے تھے اور اب چار بچوں کے والد ہیں جن کی عمریں آٹھ سے 18 برس کے درمیان ہیں۔
وہ کئی دیگر پاکستانی خاندانوں کی طرح سالہا سال برطانیہ میں رہنے کے بعد آج کل اپنے بچوں کو پاکستانی تہذیب سکھانے کے لیے پاکستان منتقل ہوئے ہیں اور اس ارادے کے ساتھ آئے ہیں کہ وہ دو سال تک پاکستان میں قیام کریں گے۔
مزید پڑھیں
-
اوورسیز پاکستانی ناراض نہیں، ترسیلات زر بڑھ رہی ہیں: وزیر خزانہNode ID: 886308
برطانیہ میں اس وقت 16 لاکھ سے زائد پاکستانی آباد ہیں جن میں کئی ایک خاندان ایسے ہیں، جن کی چوتھی نسل وہاں ہے۔ یعنی ان کے والد یا دادا میں سے کوئی ایک 60 یا 70 کی دہائی میں برطانیہ منتقل ہوا تھا۔
دوسری قسم ان پاکستانیوں کی ہے جنھیں 60 یا 70 کی دہائی میں وہاں جانے والوں یا ان کے بچوں نے اپنے بچے بنا کر وہاں منتقل کیا۔ حالانکہ وہ حقیقت میں ان کے بچے نہیں تھے۔ بعد ازاں شادیاں کرکے اپنے رشتے داروں کے بچوں کو برطانیہ منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو کسی حد تک آج بھی جاری ہے۔
اب جو تیسری چوتھی نسل جوان ہو رہی ہے اس کے بارے میں ان کے اپنے والدین کا یہ کہنا ہے کہ انھیں پاکستان کے رہن سہن، زبان اور رشتہ داری کے کلچر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب برطانیہ میں مقیم بہت سے خاندان اپنے بچوں کو لے کر پاکستان منتقل ہو رہے ہیں اور انھیں دیہاتی زندگی، خاندانی نظام، باہمی میل جول، رشتہ داریوں، زمینداری، مویشیوں کی دیکھ بھال اور کھیتی باڑی جیسے کاموں سے متعارف کروا رہے ہیں تاکہ ان میں اپنے لوگوں، اپنی مٹی اور اپنی زبان و ثقافت کی چاہ جنم لے سکے۔
فخر حسین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ لگنے لگا تھا کہ ہمارے بچوں کو سکول میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ آپ کی اپنی ذات سب سے اہم ہے اس لیے کسی اور کے بجائے صرف خود پر توجہ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کو ہم ماں باپ بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ انھیں گھر میں موجود دادا دادی یا نانا نانی سے بھی کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی۔ بڑے بچے کو تو کچھ کہنا بھی مسئلہ بن رہا تھا کہ اس کے سکول والے اکثر اس سے سوال کرتے تھے کہ گھر میں آپ سے آپ کی مرضی کے خلاف زبردستی کوئی کام تو نہیں کروایا جاتا۔‘
فخر حسین تسلیم کرتے ہیں کہ ’جب ہم بچوں کو پاکستان لانے کا سوچ رہے تھے تو ہمیں ڈر تھا کہ کہیں وہ بغاوت نہ کر دیں، مگر ہم نے حکمت سے کام لیا اور انہیں آہستہ آہستہ پاکستان کے کلچر میں ڈھالا اور قائل کیا۔‘

انھوں نے کہا ’جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری اولاد ہمارے ہاتھ سے نکل رہی ہے اور ان میں لڑکیاں بھی شامل ہیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ پیسے تو کما لیں گے لیکن اولاد بھی جائے گی اور عزت بھی۔ پہلے لوگ بچیوں یا بچوں کو پاکستان لا کر زبردستی ان کی شادیاں کر دیتے تھے جبکہ اب شعور آ جانے اور قوانین میں تبدیلی کی وجہ سے یہ ممکن نہیں رہا تھا تو اس کا متبادل یہی سمجھ آیا ہے کہ بچوں کو اپنی مٹی اور کلچر سے روشناس کرایا جائے۔ جہاں وہ باقی لوگوں کو دیکھیں گے، ملیں گے اور یہاں لوگوں کے باہمی تعلقات دیکھیں گے تو ان کو خاندان کی اہمیت سمجھ آئے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے دو سال تک محنت کی اور پاکستان میں اگلے دو سال رہنے کے لیے خرچہ جمع کیا۔ بچوں کو یہاں سکول میں داخل کروایا ہے۔ فارغ وقت میں ان کو رشتہ داروں کے گھر لے کر جاتے ہیں۔ زمینوں اور کھیتوں میں لے جا کر گھوڑوں پر سواری کراتے ہیں۔ وہ بچے جو برطانیہ میں ہمارے قریب نہیں پھٹکتے تھے اب ہر وقت اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ رہیں اور نئے نئے دوست بنائیں۔ اب تو ان کو پنجابی آنا شروع ہوگئی ہے اور تو اور دیسی ٹچ بھی آنے لگا ہے جس وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ فیصلہ درست ہے۔‘
فخر حسین کے علاوہ محمد اسلم بھی اپنی کئی قریبی فیملیز کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ان کے خاندان میں کچھ بھائیوں کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے اور 10، 12 سال کی عمر میں برطانیہ گئے جبکہ کچھ برطانیہ میں ہی پیدا ہوئے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ کہ پاکستان سے جانے والے بچے متحرک اور سمجھدار ہیں جبکہ برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچے ان کے مقابلے میں بالکل ہی سیدھے سادھے ہیں۔ پاکستان سے جانے والے بچے جب کام پر لگتے ہیں تو خوب محنت کرتے ہیں اور خوب کمائی کرتے ہیں۔
ان میں والدین کی خدمت کا جذبہ بھی موجود ہوتا ہے جبکہ برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی اکثریت زیادہ کام کرنے کو بیوقوفی سمجھتی ہے اور صرف اپنی ذات کا سوچتی ہے۔
محمد اسلم نے بتایا کہ جب ہم نے اپنے بچوں کو پاکستان لانے کا فیصلہ کیا تو طویل عرصے تک میاں بیوی میں جنگ جاری رہی کیونکہ بیوی سمجھتی تھی کہ لوگ برطانیہ آ رہے ہیں اور ہم اپنے بچوں کو پاکستان بھیج دیں؟ جبکہ بچے بھی کہتے کہ پاکستان بھی رہنے کی کوئی جگہ ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہمارے وہ بچے جو ٹین ایج میں پاکستان سے برطانیہ گئے تھے ان کی شادی کی عمریں ہوئیں تو ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے والدین کو رشتے کرنے کا مکمل اختیار دے دیا اور کزن میریج تک منظور کر لی لیکن جب برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچوں سے یہی سوال کیا گیا تو انھوں نے نہ صرف احتجاج کیا بلکہ مجبور کرنے کی صورت میں گھر چھوڑنے کی دھمکی دے دی۔‘
انھوں نے اپنے خاندان کے حالات کو بھانپتے ہوئے اپنے بچوں کو پاکستان منتقل کیا۔ وہ اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ کچھ برس قبل جب ان کے ایک کزن نے اپنے بچوں کو برطانیہ سے پاکستان لا کر اسلام آباد کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ دلوایا تو کچھ عرصے بعد انھوں نے واپس برطانیہ جانا مناسب سمجھا اور ان کا خیال تھا کہ اگر اسلام آباد میں قیام کرنا ہے تو یورپ ہی بہتر ہے کیونکہ ماحول میں کچھ خاص فرق نہیں ہے۔
اس لیے محمد اسلم نے اپنے گاؤں میں رہنے اور گاؤں کے سکول میں ہی بچوں کو داخل کروانے کا فیصلہ کیا۔ جبکہ پاکستان میں بچوں کے قیام کو بامقصد بنانے کے لیے انھوں نے فارم ہاؤس بنایا جہاں مرغیاں، بکریاں، گائے، بھینس، گھوڑے سب رکھے تاکہ وہ ان کے ساتھ اپنا کوالٹی ٹائم گزار سکیں۔
پاکستان آنے کے فیصلے کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ’ہم پاکستانیوں کو یہ لگتا ہے کہ ہماری اولاد چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی وہ ہمیشہ ہمارے کنٹرول میں رہے۔ برطانیہ میں جب والدین اپنی بچیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ گھر چھوڑ دیتی ہیں کیونکہ ان بچیوں کے نزدیک ایسا کرنا معیوب نہیں ہوتا کہ ان کے مقامی دوستوں کی بڑی تعداد 20 سال کے بعد ویسے ہی والدین کا گھر چھوڑ کر اپنا کھانے کمانے لگ جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں ایسے معاملات عزت بے عزتی سے جڑے ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’یہی وجہ ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ اولاد پر زبردستی کرنے کے بجائے انھیں روایات سے روشناس کرایا جائے۔ اب وہ بیٹھک میں بیٹھتے ہیں، بڑوں کی باتیں سنتے ہیں۔ ماضی کے قصوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ سوالات کرتے ہیں اور جوابات پر حیران ہو کر کہتے ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔ یوں ان کے لیے وہ باتیں اور کام جو ناممکن تھے آہستہ آہستہ ان کے لیے معمول بن رہے ہیں۔ ان کے سوچنے کا انداز بدل رہا ہے۔ رشتہ داروں سے رغبت ہو رہی ہے اور امید ہے کہ جب وہ برطانیہ جائیں گے تو جلد واپس آنے کی خواہش ان کے دل میں موجود ہوگی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب ہم بچوں کو بتاتے تھے کہ پاکستان میں ہماری زمینیں جائیدادیں ہیں تو ان کو ان میں ذرا بھی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ جس سے ہمیں یہ خدشہ تھا کہ ہماری آبائی زمینوں پر تو رشتہ دار یا کوئی اور قبضہ کر لے گا۔ لیکن اب جب کچھ عرصہ سے بچے پاکستان میں ہیں تو ان کو غیر محسوس انداز میں زمینوں کے بارے میں بتا رہے ہیں تو اب وہ مختلف زمینوں کے بارے میں پوچھنے لگے ہیں کہ یہ کس کی زمین ہے اور فلاں کھیت کا مالک کون ہے۔ اس طرح ان میں اپنی ملکیت کا احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے۔‘
ابتدا میں برطانیہ سے بچوں کو پاکستان لانے کا تجربہ محدود تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں تیزی آ رہی ہے اور یکے بعد دیگرے خاندان پاکستان منتقل ہو رہے ہیں۔
اس سے ایک تو مقامی سطح پر زراعت اور مویشیوں کی مارکیٹ میں روزانہ کی بنیاد پر سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور دوسری جانب اس سے مقامی لوگوں کو روزگار بھی میسر آ رہا ہے۔ وہیں یہ تاثر بھی تبدیل ہو رہا ہے کہ یورپ یا برطانیہ جانے والے ہی کامیاب ہیں جس کے فوری طور پر نہ سہی تاہم دور رس اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔
اس حوالے سے گجرات ہی سے تعلق رکھنے والے سماجی ورکر اور استاد محمد یوسف کہتے ہیں کہ ماضی قریب میں تو برطانیہ یا یورپ میں وفات پا جانے والوں کی میت پاکستان منتقل کرکے ان کی تدفین یہاں کی جاتی تھی، لیکن کورونا کے بعد سے اب تدفین کا عمل بھی وہیں شروع ہو گیا ہے۔
’اس سے بظاہر تو اگلی نسلوں کا پاکستان سے رابطہ کٹنے کا خدشہ ہے لیکن نو دس سال کے بچوں کو پاکستان منتقل کرکے انہیں یہاں کچھ عرصہ رکھنے کا آئیڈیا برا نہیں ہے۔ لیکن اگر مقصد صرف رسم و رواج اور طور طریقے سکھانا اور اپنے آباؤ اجداد سے متعلق آگاہ کرنا ہو پھر تو بہتر ہے لیکن اگر بچوں کے ہاتھ سے نکل جانے کا خدشہ ہو اور یہاں آ کر انہیں یہ بتانا مقصود ہو کہ والدین اپنے بچوں پر زور زبردستی بھی کر سکتے ہیں تو ایسے میں بچے کی شخصیت پر منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے علاقے کے لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ دولت بھی کمانا چاہتے ہیں، دن بدن امیر بھی ہونا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس سارے گھن چکر میں ان کی اولاد ان کے کنٹرول میں رہے۔ اس لیے جب وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے بڑے ہو رہے ہیں اور سیکھنے کے قابل ہیں تو وہ انہیں پاکستان لا کر کچھ عرصہ یہاں کے رسم و رواج اور طور طریقوں سے آگاہی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
محمد یوسف کے مطابق ’ابھی تک بظاہر اس تجربے کے بہتر نتائج ہی سامنے آئے ہیں اس لیے دیگر والدین جو برطانیہ یا یورپ میں مقیم ہیں، کو بھی اس پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے کسی قسم کا کوئی اچانک فیصلہ کرنے سے بہتر ہے کہ والدین طویل سوچ بچار کے بعد اور اپنے بچوں کو مکمل اعتماد میں لینے کے ساتھ ہی فیصلہ کریں تو اس سے بہتری آنے کے امکانات ہیں۔‘