پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیراعلٰی مریم نواز ویسے تو خبروں کا موضوع رہتی ہی ہیں تاہم جمعرات کو پہلی مرتبہ ان کا ایسا روپ دیکھنے میں آیا جس میں وہ غصے میں نظر آئیں۔
مریم نواز نے کھڑے کھڑے لاہور کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال یعنی میو ہسپتال کے نہ صرف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو معطل کر دیا بلکہ اس کے بعد کئی دیگر افسران بھی معطل ہو چکے ہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ وزیر اعلٰی مریم نواز نے اچانک میو ہسپتال کا دورہ کیا تو وہاں موجود مریضوں اور ان کے لواحقین نے شکایتوں کے انبار لگا دیے۔ لوگوں نے یہ تک کہہ دیا کہ ٹیکہ لگانے کے لے سرنج تک باہر سے لینی پڑ رہی ہے۔
مزید پڑھیں
بس پھر کیا ہوا کہ وزیر اعلٰی نے اسی لمحے ایم ایس ڈاکٹر فیصل مسعود کو معطل کرنے کے احکامات دیتے ہوئے کہا کہ ’شکر کریں کہ نااہلی کی وجہ سے گرفتار نہیں کروا دیا۔‘
جب پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف تھے تو اس طرح کے مناظر آئے روز ہی دیکھنے کو ملتے تھے۔ لیکن مریم نواز کی حکومت کا ایک سال گزرنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے اتنی سرزنش کی اور کسی افسر کو میڈیا کے سامنے معطل کیا جس پر ہر جانب اب تبصرے ہو رہے ہیں۔
لیکن بات اتنی بھی سادہ نہیں ہے۔ اس معطلی کے چند گھنٹوں کے بعد ہی معطل کیے جانے والے ڈاکٹر فیصل مسعود کا استعفیٰ منظر عام پر آ گیا جو انہوں نے ایک مہینہ قبل دیا تھا۔
محکمہ صحت نے اردو نیوز کو اس استعفے کی تصدیق کی ہے تاہم یہ بھی بتایا ہے کہ ان کا استعفیٰ قبول نہیں کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر فیصل مسعود نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کیا ہے تاہم ان کے ایک کولیگ جو اس سارے معاملے سے باخبر ہیں، انہوں نے ایک آڈیو میسج کے ذریعے اس واقعے کا بیک گراونڈ واضح کیا ہے تاہم انہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔
میو ہسپتال کے اندر کی سیاسی لڑائی
لاہور کے سے سب سے بڑے سیاسی ہسپتال میں اندرون خانہ کئی معاملات کافی عرصے سے چل رہے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہسپتال دو ارب روپے سے زائد کا میڈیکل سپلائی کمپنیوں کا مقروض ہے۔
جبکہ گزشتہ ماہ آرتھوپیڈک ڈیپارٹمںٹ میں دوسری منزل سے ایک لفٹ گرنے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا جس میں 11 نرسیں زخمی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر فیصل آرتھوپیڈک یونٹ 2 کے سربراہ ہیں تاہم انہیں ہسپتال کے ایم ایس کا اضافی چارج دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر فیصل کے کولیگ نے صورت حال بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس لفٹ کے گرنے پر یہ ملبہ بھی ڈاکٹر فیصل پر گرایا گیا کیونکہ خواتین کافی زیادہ زخمی ہوئی تھیں۔ کئی ایک کی تو ہڈیاں بھی ٹوٹ گئی تھیں اور وہ ابھی بھی زیر علاج ہیں۔‘
’یہ لفٹ ڈاکٹر فیصل نے فرینڈز آف میو نامی ایک گروپ سے عطیہ لی تھی۔ انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فرینڈ آف میو نے جو لفٹ لگوائی تھی اور جس کے پیسے دیے تھے، یہ وہ والی لفٹ نہیں تھی اور اس میں سکیورٹی فیچر تھے ہی نہیں۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر فیصل کو پروفیسر شپ چھوڑنے اور مستقل ایم ایس کی انتظامی سیٹ سنبھالنے کا کہا جا رہا تھا۔
’اسی وارڈ میں ایک اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج یونیورسٹی کے کیڈر پر بھرتی ہوئے تھے اور اگلے مہینے ان کی پرموشن پروفیسر کے لیے ہو رہی ہے۔ لیکن ڈاکٹر فیصل کا موقف ہے کہ وہ پنجاب سروس کمیشن کی طرف سے بھرتی ہو کر آئے تھے۔ وہ ایم ایس بننے کے انتظامی عہدے میں دلچسپی نہیں رکھتے تو انہوں نے اپنی نوکری سے استعفی دے دیا تھا جو قبول نہیں ہوا۔‘

میو ہسپتال کے مختلف ڈاکٹروں سے بات کرنے کے بعد یہ عندیہ ملتا ہے کہ کچھ ڈاکٹروں نے سیاسی بدلہ لینے کے لیے مریم نواز کے اس اچانک دورے کا اہتمام انتہائی سلیقے سے کروایا تھا۔
اب ایک اعلٰی سطح کی کمیٹی اس سارے معاملے کو شروع سے آخر تک دیکھ رہی ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے لاہور چیپٹر کے صدر ڈاکٹر شاہد شوکت کا کہنا ہے کہ ’جو کچھ میو ہسپتال میں کل ہوا وہ ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے میرے لیے قابل شرم ہے۔ لیکن معاملہ صرف وہ نہیں جو دکھایا جا رہا ہے۔ ہم تو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ محکمہ صحت تباہی کی طرف جا رہا ہے۔‘
’ہر ہسپتال میں انتظامی عہدوں کی بھرمار ہے لیکن گورننس ماڈل نہیں ہے۔ کوئی کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔ چلیں اچھا ہوا ہے کہ وزیر اعلی مریم نواز نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ کہانی کتنی خراب ہے۔ ہم امید کر رہے ہیں کہ اب وہ محکمہ صحت کی بحالی پر درست طریقے سے کام کریں گی۔‘
دوسری طرف وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق کا کہنا ہے کہ ابھی اس معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔
’سارے معاملے کی گہرائی سے جانچ کی جا رہی ہے۔ اگلے آنے والے دنوں میں بہت کچھ تبدیل ہو گا تو اس موضوع پر بات کریں۔‘