Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مریم نواز کے خلاف ویڈیو اور پولیس کو گالیاں‘، پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات درج

20 فروری کو ایک ہی دن لاہور کے مختلف علاقوں میں پیکا ایکٹ کے تحت تین مقدمات درج کیے گئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں بظاہر انٹرنیٹ کے ذریعے منافرت اور فیک نیوز کی روک تھام کے لیے بنائے جانے والے نئے قانون پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) میں ترمیم کے خلاف ایک طرف ملک بھر کی صحافتی تنظمیں سراپا احتجاج ہیں، تو دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے محکمے اس قانون کے تحت مقدمات کا اندراج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایک جانب ایف آئی اے، جبکہ دوسری جانب پولیس بھی پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر رہی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ جمعرات کو ایک ہی دن میں لاہور کے مختلف علاقوں میں پیکا ایکٹ کے تحت تین مقدمات درج کیے گئے۔
یہ مقدمات لاہور کے کوٹ لکھپت اور شاہدرہ ٹاؤن تھانوں میں درج کیے گئے ہیں۔
تینوں مقدمات کے اندراج کی درخواستیں دینے والوں نے خود کو ’محب وطن پاکستانی شہری‘ کے طور پر متعارف کروایا ہے اور جنہیں بطورِ ملزم نامزد کیا، اُنہیں ’نامعلوم شرپسند عناصر‘ قرار دیا ہے۔
مقدمات درج کرانے والوں نے الزام عائد کیا ہے کہ اُن کو سوشل میڈیا پر ’وزیراعلیٰ پنجاب اور اداروں کے خلاف ویڈیوز نظر آئی ہیں۔

پیکا ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا کے مواد یا تبصروں کو بنیاد بنا کر مقدمات درج کیے جا رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس سے قبل پنجاب کے شہر میلسی کی  پولیس نے 17 فروری کو پیکا ایکٹ کے تحت ایک مقدمہ اپنی مدعیت میں درج کیا تھا، جس میں ایک شخص پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے ’پولیس کی آفیشل سوشل میڈیا پوسٹ پر محکمے کو گالیاں نکالی ہیں۔‘
اسی دن میلسی میں ایک اور مقدمہ تھانہ صدر میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا ہے، جس میں خواتین کی نازیبا تصاویر بنا کر بلیک میلنگ کرنے کے الزام میں دو افراد کو نامزد کیا گیا۔
پیکا ایکٹ میں ترمیم کے بعد پہلا مقدمہ تین فروری کو پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں ایک واٹس ایپ گروپ کے ایڈمن کے خلاف جھوٹی خبر پھیلانے پر درج ہوا تھا۔
جبکہ ایک دن بعد ہی چار فروری کو مظفرگڑھ میں توہینِ مذہب کی جھوٹی خبر پھیلانے پر مقدمہ درج ہوا۔
صوبہ خیبرپختونخوا میں اب تک اس حوالے سے تین مقدمے درج ہو چکے ہیں۔

چار فروری کو مظفرگڑھ میں توہینِ مذہب کی جھوٹی خبر پھیلانے پر مقدمہ درج ہوا (فائل فوٹو: لاہور پولیس)

ان مقدمات پر بات کرتے ہوئے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس بات کو یوں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پیکا ایکٹ 2016 سے لاگو ہے اور اس قانون کے تحت ہزاروں مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس ہر سائبر کرائم کا کیس پیکا ایکٹ کے تحت ہی درج ہو رہا ہے اور جب سے یہ قانون بنا ہے، تب سے ایسا ہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں آپ کو مثال دیتا ہوں کہ 29 جنوری کو صدر کے دستخط سے ترمیم قانون کا حصہ بنی، تو اس سے پہلے اسی ہفتے میں ہم نے چھ مقدمات درج کیے جن میں پیکا ایکٹ ہی لگا۔‘
’ایکٹ پاس ہونے کے بعد ایک درجن مقدمے درج ہوئے جس میں سے ایک فنگر پرنٹس کی چوری کا کیس ہے، باقی زیادہ تر خواتین کی بلیک میلنگ کے کیس ہیں۔ سو ہماری رفتار میں اضافہ ہوا ہے اور نہ کچھ تبدیل ہوا ہے۔‘
سرفراز چوہدری کے مطابق ’اس ترمیم سے صرف یہ ہوا ہے کہ کچھ جرائم کی تعریف واضح کی گئی ہے۔ یعنی فیک نیوز اور اس طرح کی اصلاحات کے معنی واضح کیے گئے ہیں جس سے اس قانون کا سکوپ وسیع ہوا ہے۔‘

گزشتہ ماہ وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کے خلاف سوشل میڈیا پر نازیبا مہم چلانے پر بھی دو مقدمات درج کیے گئے تھے (فوٹو: اے پی پی)

انہوں نے کہا کہ ’لیکن ہمارے پاس ابھی کوئی غیرمعمولی کیس نہیں آیا جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ اگر یہ ترمیم نہ ہوئی ہوتی تو یہ کیس درج نہ ہو سکتا۔ ہاں، پولیس نے کوئی کیس درج کیا ہو تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔‘
ایف آئی اے نے گزشتہ ماہ وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کے خلاف سوشل میڈیا پر نازیبا مہم چلانے پر بھی دو مقدمات درج کیے تھے تاہم یہ مقدمے ترمیم سے پہلے درج ہوئے اور ان میں نامزد کئی ملزمان گرفتار بھی کیے گئے۔
انہی دو مقدمات کے تحت تحریک انصاف کے رپنما شہباز گِل اور صحافی عمران ریاض کے نام سٹاپ لسٹ میں شامل کر کے انہیں اشتہاری قرار دینے کی کارروائی بھی جاری ہے۔

 

شیئر: