وزیراعظم شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی ملک کے لیے ناسور بن چکی ہے، اور ہم سب کو مل کر اس ناسور کا دیرپا اور پائیدار حل نکالنا ہے۔
منگل کو قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے بند کمرہ اجلاس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کی، جس میں اعلٰی حکومتی و عسکری قیادت نے شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’دہشت گردی کے لیے پاکستان کی سرزمین پر کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم اپنے شہدا کی قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اپنے خون سے اس ملک کے امن و استحکام کی بنیادیں مضبوط کی ہیں، اور ہمیں اس مقصد کو ہر حال میں پورا کرنا ہو گا۔‘
مزید پڑھیں
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ملک کو دہشت گردی سے مکمل طور پر پاک کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ پاکستان میں امن و امان اور سلامتی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو انجام تک پہنچایا جائے گا، اور اس کے لیے تمام ریاستی ادارے ایک پیج پر ہیں۔‘
’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم متحد ہے اور ہم ہر صورت دہشت گردوں کو شکست دیں گے۔ یہ ملک کا اجتماعی مسئلہ ہے اور ہمیں سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس کا حل نکالنا ہوگا۔ اچھا ہوتا اگر اپوزیشن کے دوست بھی اس اہم اجلاس میں شرکت کرتے۔ دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ مضبوط بنانے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے دہشت گردی کے خلاف ریاستی اداروں کی کارروائیوں کو قابلِ ستائش اور قابلِ فخر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے سکیورٹی اداروں کے بہادر جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک کے دفاع کو یقینی بنایا ہے، اور پوری قوم ان کی قربانیوں کو سلام پیش کرتی ہے۔
اجلاس کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی گفتگو کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی سلامتی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان دہشتگردوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے، اور پاکستان میں بھڑکنے والی آگ باقی دنیا کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ خطے کے دیگر ممالک کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ خطرہ ان تک نہیں پہنچے گا۔ بلاول بھٹو نے زور دیا کہ دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کا بھی سراغ لگانا ہو گا۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اجلاس میں پی ٹی آئی کی غیرموجودگی پر مایوسی کا اظہار کیا۔
ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی ان سے مشورہ کرتی تو وہ انہیں اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے قائل کرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ 1988ء سے ملک سے وفاداری کا حلف اٹھا رہے ہیں، اور ایسے اہم قومی معاملات پر تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہونا چاہیے۔
ذرائع کے مطابق ان رہنماؤں نے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ تمام ریاستی اداروں کو مشترکہ حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا تاکہ ملک کو محفوظ رکھا جا سکے۔
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیرِصدارت قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر، ڈی جی آئی ایس آئی عاصم ملک، ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی بی فواد اسد سمیت دیگر عسکری حکام نے شرکت کی۔
سیاسی قیادت میں وزیراعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، وزیر دفاع خواجہ آصف، رانا ثنااللّٰہ، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، احسن اقبال، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، فیصل واوڈا، خالد مقبول صدیقی، جام کمال، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان بھی شامل تھے۔
چاروں صوبوں کے وزرائے اعلٰی، گورنرز، آئی جی پولیس اور وفاقی کابینہ کے 38 اراکین بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔

پیپلز پارٹی کے 16 اراکین بلاول بھٹو کی سربراہی میں اجلاس میں شامل ہوئے، مسلم لیگ ق کے دو اراکین، استحکام پاکستان پارٹی کے عبدالعلیم خان، نیشنل پارٹی کے سینیٹر جان محمد بلیدی اور مسلم لیگ ضیا کے اعجاز الحق نے بھی شرکت کی۔
تاہم پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی بشیر خان مختصر وقت کے لیے آئے اور واپس چلے گئے، جبکہ اجلاس میں بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل کو بلایا گیا تھا لیکن انہوں نے شرکت نہیں کی۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور محمود خان اچکزئی بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
اجلاس کے آغاز میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے تمام شرکا کو خوش آمدید کہا۔
ایاز صادق کا کہنا تھا کہ آج کے اجلاس میں تمام شرکا کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ملک کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر ہمیں اتحاد اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اپوزیشن نے اجلاس میں شرکت نہیں کی اور کہا کہ ہم نے اپوزیشن کو بھی دعوت دی تھی، اور بہتر ہوتا اگر وہ بھی اس اہم اجلاس میں شریک ہوتے۔ ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔ اپوزیشن کا رویہ پارلیمانی روایات کے منافی ہے، اور انہوں نے آج بھی قوم کو مایوس کیا۔ اس نوعیت کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر اور ان کی جماعت کو شرکت کرنی چاہیے تھی۔

اجلاس میں ڈی جی ملٹری آپریشنز نے تفصیلی بریفنگ دی، جس میں ملک کی سلامتی کی موجودہ صورتحال، دہشت گردی کے خلاف کی گئی کارروائیوں اور مستقبل کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالی گئی۔